در و دیوار اگر تم ہو تو بنیاد ہیں ہم

   

شہریت بل … غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم
مسلمان نشانہ … ہندوتوا ایجنڈہ

رشیدالدین
’’دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘ زمانہ بھلے ہی قیامت کی چال چلے یا نہ چلے لیکن نریندر مودی حکومت اس راستہ پر گامزن دکھائی دے رہی ہے۔ جمہوریت ، دستور اور قانون کا کوئی پاس و لحاظ نہیں اور حکومت کو صرف ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کی فکر ہے۔ مودی کی پہلی میعاد میں جو خفیہ ایجنڈہ تھا، دوسری میعاد میں اسے بیباکی کے ساتھ عوام میں نہ صرف پیش کردیا گیا بلکہ عمل آوری میں تیزی پیدا کردی گئی ۔ سیکولر ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کیلئے مودی حکومت عجلت میں دکھائی دے رہی ہے۔ طلاق ثلاثہ کے بعد کشمیر سے دفعہ 370 کی برخواستگی اور ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ رام مندر کی تعمیر کا راہ ہموار کرلی گئی ۔ مسلمانوں کی شہریت کو نشانہ بنانے کیلئے این آر سی اور اب شہریت ترمیمی بل کی منظوری کی تیاری۔ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوگا بلکہ کثرت ازدواج ، حلالہ اور وراثت کے شرعی قوانین کو نشانہ بنایا جائے گا اور آخری حربہ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ رہے گا۔ جس طرح سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو تعزیری جرم قرار دیا ہے، اس کے بعد کثرت ازدواج اور حلالہ کے جواز کو چیلنج کردیا گیا۔ سپریم کورٹ میں اس معاملہ کی سماعت آئندہ ماہ مقرر ہے۔ ظاہر ہے کہ شرعی قوانین کے خلاف عدلیہ کے فیصلے کوئی نئی بات نہیں اور اس معاملہ میں بھی ہوسکتا ہے عدالت شرعی قوانین پر ملک کے قوانین کو ترجیح دیتے ہوئے احکامات جاری کردے۔ یہ تمام ہندو راشٹر کی اہم کڑی ہے۔ سیکولر طاقتوں اور مسلمانوں کی بے حسی بی جے پی کو ہندو توا ایجنڈہ پر عمل آوری میں مددگار ثابت ہورہی ہے۔ 2014 ء کے بعد سے جب ہندوتوا ایجنڈہ پر مرحلہ وار عمل آوری کی تیاری کی گئی تو سماج کا ایک طبقہ یہ کہتے ہوئے اپنے آپ کو تسلی دینے لگا کہ فلاں کام نہیں ہوسکتا اور بی جے پی ایسی ہمت نہیں کرسکتی۔ لوگ یہ سوچ کر خواب غفلت کا شکار رہے لیکن بی جے پی کی پیشقدمی جاری رہی ۔ طلاق ثلاثہ مسئلہ پر شریعت میں مداخلت اور کشمیر سے 370 کی برخواستگی کے وقت بھی سیکولر طاقتیں خوش فہمی کا شکار رہی لیکن حکومت نے ایجنڈہ کی تکمیل کرتے ہوئے اپنے عزائم کو آشکار کیا ہے۔ مسلمانوں کی شہریت کو خطرہ پیدا کرنے اور دوسرے درجہ کے شہری بنانے کا اسکرپٹ تیار ہوچکا ہے ۔ پھر بھی بعض گوشے افیون زدہ ذہنیت کے ساتھ اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ اب تک جن امور کو بھی ناقابل عمل کہا گیا، بی جے پی نے اس پر عمل کر دکھایا۔ بیمار ذہنیت کے حامل یہ عناصر واقعی بے حس ہوچکے ہیں یا پھر ہر چیز کو ناممکن قرار دے کر حکومت کو طیش میں لارہے ہیں تاکہ ایجنڈہ کی جلد تکمیل ہوسکے۔ مودی حکومت نے جب دیکھ لیا کہ ایجنڈہ کی تکمیل میں سیاسی جماعتیں ، عوام ، دستوری و قانونی ادارے حتیٰ کہ عدلیہ کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے تو جلد سے جلد باقی امور کی تکمیل کردی جائے تاکہ 2024 ء تک ہندو راشٹرا کا نشانہ پورا ہوسکے۔ امیت شاہ نے این آر سی کیلئے 2024 ء کی ڈیڈ لائین مقرر کردی اور ملک بھر سے ایک ایک درانداز کو باہر کرنے کا اعلان کیا ۔ اس سے قبل شہریت ترمیمی بل کو پارلیمنٹ کی منظوری کی تیاری ہے جس کے تحت پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان کے غیر مسلم پناہ گزینوں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی ۔ ڈسمبر 2014 سے قبل ہندوستان میں پناہ لینے والے 6 مذہبی طبقات ہندو ، عیسائی ، سکھ ، پارسی ، جین اور بدھسٹوں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی ۔ مجوزہ قانون حکومت اور برسر اقتدار پارٹی میں مسلمانوں کے لئے نفرت اور تعصب کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے ۔ مسلمانوں کو مجوزہ قانون کے دائرہ میں شامل نہ کرتے ہوئے حکومت نے لاکھوں مسلم پناہ گزینوں کو شہریت سے محروم کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ یہ کس طرح طئے کیا جائے گا کہ تینوں پڑوسی ممالک سے آئے ہوئے غیر مسلم واقعی مذہبی ایذا رسانی کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کے تعین کا پیمانہ کیا ہوگا ؟ مجوزہ قانون کے ذریعہ یہ تاثر دیا جائے گا کہ پڑوسی ممالک میں غیر مسلموں کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر ایذا رسانی کا ماحول ہے۔ صرف غیر مسلموں پر مہربانی اور ہمدردی کیوں ؟ ان مسلمانوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کیوں نہیں جو حالات کا شکار ہوکر دو وقت کی روٹی اور روزگار کے لئے اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ جب مذہبی ایذا رسانی شہریت کی بنیاد ہے تو پھر چین ، میانمار اور سری لنکا میں مذہبی ایذا رسانی کے شکار مسلمانوں کو بھی شہریت کا اعلان کیا جائے ۔ ہندوستان میں مسلمان ہزاروں سال قبل باہر سے آئے ہوئے ہیں ، اس طرح ہندوستانی شہریت پر ان کا پہلا حق ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصہ سے مسلمان ہندوستان میں پناہ گزین بننا چاہیں تو ان کا بھی استقبال ہونا چاہئے ۔ مسلمانوں کو شہریت دینا توکجا ان پر مظالم کے خلاف ہندوستان نے آواز تک نہیں اٹھائی۔ پڑوسی ممالک میں غیر مسلموں کو مذہبی بنیاد پر ہراسانی پر مودی حکومت فکرمند ہیں لیکن گزشتہ چھ برسوں میں طرح طرح سے مسلمانوں کو جو اذیت دی گئی ، اس کا کیا جواز ہے۔ مذہبی بنیادوں پر نفرت پرمبنی مہم ، لوجہاد اور گھر واپسی کے نام پر نشانہ بنانا اور پھر گائے کے نام پر ہجومی تشدد میں بے قصور کو مسلمانوں کی ہلاکتوں پر حکومت خاموش کیوں ہے؟ ان مظالم کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ ظاہر ہے حکومت کو اس بات کا علم ہے کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والے کون ہیں لیکن اس کی مجبوری ہے کہ وہ کارروائی نہیں کرسکتی کیونکہ اس طرح کے مظالم کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلے پست کرنا ہندوتوا طاقتوں کے ایجنڈہ کا حصہ ہے۔ پڑوسی ممالک کے غیر مسلموں کی فکر بعد میں کریں، اس سے پہلے ملک کے ان مسلمانوں کے ساتھ انصاف کیا جائے جنہوں نے اپنے خونِ جگر سے ہندوستان کی آبیاری کی۔ ملک کی آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی کے بعد ملک کی ترقی اور دنیا میں مختلف شعبوں میں ہندوستان کا نام روشن کرنے والے مسلمان ہی تھے۔ دفاعی شعبہ میں ہندوستان کو ناقابل تسخیر میزائیل کی طاقت سے لیس کرنے والے میزائیل میان اے پی جے عبدالکلام مسلمان تھے۔ ملک کے چپہ چپہ پر مسلمانوں کی عظمت کے نشان باقی ہیں اور مسلمانوں کی تعمیرات سے دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت ہے۔ ملک کا قومی پرچم مسلمانوں کی نشانی لال قلعہ پر لہرایا جاتا ہے۔ شہریت ترمیمی بل عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کردے گا، جو ملک کے اتحاد اور سلمیت کی صحت کیلئے ٹھیک نہیں ہے ۔
شہریت ترمیمی بل کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانا سنگھ پریوار کا بنیادی ایجنڈہ ہے جس پر حکومت عمل پیرا ہے۔ جن کی 7 پشت ہندوستانی ہیں، ان کی شہریت پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے ان کی ہندوستانی شناخت تلاش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی شہریت پر شبہ اور دیگر ممالک سے آنے والے ہندوؤں کا سرخ قالین استقبال باعث حیرت ہے۔ این آر سی دراصل انتشار پسند اور فرقہ وارانہ بل ہے، جس کی منظوری سے سماج کا بھلا نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ میں مجوزہ بل کی منظوری میں بھلے ہی کوئی رکاوٹ نہ ہو لیکن شمال مشرقی ریاستوں میں ابھی سے احتجاج شروع ہوچکا ہے۔ آسام کی سیاسی اور سماجی تنظیموں نے بل کے خلاف ایجی ٹیشن کا آغاز کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پڑوسی ممالک کے پناہ گزینوں کو شہریت دے کر شمال مشرقی ریاستوں کی علحدہ شناخت ختم کرنے کی سازش ہے۔ آسام میں این آر سی کا تجربہ حکومت پر مہنگا ثابت ہوا۔ 19 لاکھ ناموں کو شہریت کی اہلیت سے خارج کردیا گیا جن میں 14 لاکھ ہندوؤں کے نام تھے۔ بی جے پی دراصل بنگلہ دیش سے آئے مسلم پناہ گزینوں کو نشانہ بنانا چاہتی تھی لیکن وہاں تو معاملہ الٹا پڑگیا۔ شہریت ترمیمی بل کے ذریعہ 14 لاکھ ہندوؤں کو شہریت دے دی جائے گی اور پانچ لاکھ مسلمان حراستی مراکز میں منتقل ہوجائیں گے۔ شہریت ترمیمی بل دراصل غیر قانونی ، غیر مسلم پناہ گزینوں کو شہریت فراہم کرنا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ پڑوسی ریاستوں کے ہندوؤں کو شہریت دیئے جانے سے ملک میں ہندوؤں کی آبادی میں اضافہ ہوگا۔ سنگھ پریوار مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ سے پہلے ہی پریشان ہیں، لہذا اپنی آبادی میں اضافہ کا نیا طریقہ اختیار کیا گیا ہے ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو مسلمان پناہ گزین قبول نہیں لیکن تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کو ہندوستان میں پناہ دینے کیلئے تیار ہیں کیونکہ یہ مسلمانوں اور شریعت کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل کی پیشکشی پر سیکولر جماعتوں کا امتحان ہوگا۔ کانگریس اگرچہ بل کی مخالفت کر رہی ہے لیکن پارٹی میں نرم ہندوتوا کے حامی قائدین کی رائے مختلف ہے۔ کانگریس کی نئی حلیف شیوسینا نے بل کی تائید کا اشارہ دیا ہے۔ مسلمانوں کی شہریت پر شبہات کرنے والوں کیلئے معراج فیض آبادی نے یوں جواب دیا ہے ؎
ہم بھی تعمیر وطن میں ہیں برابر کے شریک
در و دیوار اگر تم ہو تو بنیاد ہیں ہم