دستوری اخلاقیات دائو پر

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ایک برسر خدمت چیف منسٹر کی کرپشن کے مبینہ الزامات کے تحت گرفتاری ایک قانونی مسئلہ ہے۔ ایک سیاسی اور دستوری مسئلہ ہے۔ ساتھ ہی یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو آئین کے الفاظ سے بھی بالاتر ہوگیا ہے۔ بالفاظ دیگر اس مسئلہ نے دستوری اخلاقیات کو چھولیا ہے۔ اس لیے مجھے خوود ساختہ حقائق کو واضح کرنے دیجئے۔ ان مقدمات میں چیف منسٹر دہلی اور عام آدمی پارٹی لیڈر اروند کجریوال ان کے رفقاء کے خلاف یہ الزامات عائد کئے گئے ہیں کہ ان لوگوں نے دہلی شراب پالیسی میں لائسنسوں کی اجرائی میں طرفداری و تائید و حمایت کرنے کے لیے رشوتیں حاصل کی ہیں اور کچھ گروپوں نے انہیں رشوت دی تھیں۔ موجودہ دور میں ان الزامات کو کرپشن کے المامات کہا جاتا ہے جو کسی بھی طرح کسی جج کی جانب سے خاطی قرار دیئے جانے اور فیصلہ میں خاطی پائے جانے کے برابر نہیں ہے کیوں کہ قانون کا یہ اصول اور قاعدہ ہے کہ جب تک کوئی شخص خاطی قرار نہیں پاتا یا اسے خاطی ثابت نہیں کیا جاتا تب تک وہ بے قصور ہوتا ہے۔ آئیے اس لیے پہلے بے قصور کے مفروضہ سے شروع کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کسی سیاسی جماعت کا رکن ہے اور وہ سیاسی جماعت انتخابات میں مقابلہ کرتی ہے اور پھر اس سیاسی جماعت کے امیدوار قانون ساز اسمبلی کی اکثر نشستوں پر کامیاب ہوجاتے ہیں۔ مقننہ پارٹی اس شخص کو اپنا لیڈر منتخب کرتی ہے یعنی وہ قائد مقننہ منتخب ہوجاتا ہے پھر گورنر اس شخص کو عہدہ چیف منسٹری کا حلف دلاتا ہے۔ چیف منسٹر اور ان کے کابینی رفقاء اپنی اپنی ذمہ داریوں یا عہدوں کا جائزہ حاصل کرلیتے ہیں اس طرح ایک نئی حکومت وجود میں آتی ہے یہ اسکرپٹ ایسی ہے جسے 75 برسوں کے دوران بار بار دہرایا گیا۔ یہ اسکرپٹ (سیاسی پہلو کے لحاظ سے دیکھا جائے تو)و یسٹ منسٹر اوصولوں اور دستور کی دفعات کے عین مطابق ہے۔
ایک چیف منسٹر کو اقتدار سے بے دخل کرنا:
یہ بات خود ظاہر ہے کہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے ایک چیف منسٹر کا آزاد شخص ہونا ضروری ہے اور اس شخص (چیف منسٹر) کا گورنر کو مشورہ دینا بھی ضروری ہے۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے ان کا بینی اجلاس طلب کرنا بھی ضروری ہے۔ ساتھ ہی چیف منسٹر کو عوام کے خیالات اور شکایات کی سماعت بھی کرنی چاہئے۔ اس کا قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرنا اور ایوان میں اپنے کابینی رفقاء اور دوسرے ارکان کے خیالات کی سماعت کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اسے ایوان میں پیش کئے جانے والی تحریکوں اور بلز پر ووٹ بھی دینا چاہئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا نظام حکومت چونکہ ریکارڈس یا فائلوں پر مبنی ہوتا ہے ایسے میں ہر چیز کا تحریری شکل ہونا اور اس پر دستخط ثبت ہونا چاہئے۔ ایسے میں آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایسا شخص جو جیل میں ہو ازاد نہ ہو اچھی طرح سے ایک چیف منسٹر کے فرائض انجام نہیں دے سکتا۔ ویسے بھی ایک چیف منسٹر کو اقتدار سے بے دخل کرنے کئی طریقے ہیں۔ انتخابی طریقہ یہ ہے کہ کسی چیف منسٹر اور اس کی پارٹی کو ایسے انتخابات میں شکست سے دوچار کردیں جو پانچ سال میں ایک مرتبہ منعقد ہوں گے۔پانچ سال سے پہلے بھی یہ انتخابات منعقد ہوسکتے ہیں۔ پارلیمانی طریقہ یہ ہے کہ اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد منظور کی جائے یا مسترد کردی جائے مالیاتی بل یا پالیسی پر ایک اہم تحریک دونوں صورتوں میں اکثریت غالب آئے گی۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں نے ایک منتخبہ چیف منسٹر کو بے دخل کرنے کے لیے برے طریقے ایجاد کئے ہیں۔ آپریش کنول ایسی ہی ایک ایجاد ہے جس کے ذریعہ ارکان اسمبلی کو حکمراں جماعت سے مستعفی ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو کسی پارٹی سے کوئی رکن انحراف کرکے دوسری پارٹی میں شامل ہوتا ہے تو وہ دسویں شیڈول کے تحت نااہل قرار پاتا ہے اس کے باوجود دسویں شیڈول کے استثنی کے ساتھ خلاف ورزی کی گئی ہے۔
ایک منتخبہ حکومت کو غیر مستحکم کرنا:
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایک چیف منسٹر کو بے دخل کرنے کے اور بھی طریقے ہیں؟ راقم الحروف کو ایسا کرنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں مل سکتا لیکن ہمارے معاشرہ میں ہماری سیاست میں ایسے ہوشیار مرد و خواتین ہیں جنہوں نے بظاہر ایک قانونی طریقہ ڈھونڈ لیا ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ کسی چیف منسٹر کے خلاف ایف آئی آر یا ECIR کا اندراج کروایا جائے جس کے بعد اسے پوچھ کچھ کے لیے طلب کیا جائے بالفاظ دیگر اس کے خلاف سمن جاری کئے جائیں اور پھر جب وہ حاضر ہو تو پوچھ تاچھ کے بہانے اسے گرفتارکرلیا جائے۔ اس معاملہ میں سنٹرل بیورو آف انوسٹگیشن کچھ حد تک محتاط ہے لیکن انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ بہرحال جب کسی چیف منسٹر کو گرفتار کیا جاتا ہے تو گورنر کے ذریعہ اس کے استعفیٰ یا برخواستگی کا شور مچ جاتا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چیف منسٹر کو کسی دوسرے ملزم کی طرح عدالت میں پیش ہونے درخواست ضمانت داخل کرنے اور پولیس تحویل میں دیئے جانے کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ عدالتی تحویل کے احکامات کے خلاف اپیل اور آخرکار سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت دینے یا انکار کرنے کا حکم۔ اس دوران اس چیف منسٹر کی حکومت کمزور ہوجاتی ہے۔ وہ بے دخل ہونے کے قریب کنارے پر آجاتی ہے اور جلد یا بہ دیر وہ گرجاتی ہے اور اگر عارضی طور پر کوئی دوسرا گرفتارشدہ چیف منسٹر کی جگہ حاصل کرتا ہے وہ بھی اس طرح کی گرفتاری کے خطرہ کا سامنا کرسکتا ہے کسی بھی سیاسی جماعت میں اتنی طاقت یا لچکداریت نہیں ہوگی کہ وہ چیف منسٹر کے عہدہ کے لیے ایک کے بعد دیگرے امیدوار میدان میں اتارسکے۔ کسی چیف منسٹر کو ہٹانے کے لیے کرپشن کے الزامات فوری طور پر کارگر ثابت ہوتے ہیں اور ان الزامات کے پیچھے کارفرما جو مقاصد ہوتے ہیں وہ حاصل بھی ہوجاتے ہیں۔ یہ بظاہر قانونی ہے یہ اور بات ہے کہ سیاسی زاویہ سے یہ اشتعال انگیز ہوسکتا ہے۔ اگر دستوری زاویہ سے دیکھا جائے تو یہ مسئلہ قابل بحث ہے لیکن میرے سوال کی ایک بڑی جہت ہے کہ آیا ایک ایسے ملک میں جس نے ویسٹ منسٹر طرز حکومت کوا پنایا ہے ایک برسر خدمت چیف منسٹر کی گرفتاری اور نظربندی آئینی اخلاقیات کے مطابق ہے؟ اور کیا موجودہ سیاسی طاقتیں دستور کو مناسکتی ہیں؟
پارلیمانی جمہوریت کا تحفظ :
یہ اچھی بات ہوئی کہ کچھ ملکوں نے بدنیتی پر مبنی سیاسی عداوتوں کے سنگین خطرات کو محوس کیا۔ خاص طور پر تحقیقاتی ایجنسیوں اور عدالتوں کے متضاد فیصلوں کے معاملوں میں (ضمانت کے معاملہ میں) لہٰذا انہوں نے صدر یا چیف ایگزیکٹیو (سی ای او) کے استثنیٰ پر ایک شق شامل کی۔ حکومت اپنی میعاد کے دوران بھارت میں ججس کے معاملات میں عدالت عظمی نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا یا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی پیشگی اجازت کے بغیر ایک جج کے خلاف تحقیقات نہیں کی جاسکتی۔ اس میں استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔ اب ذرا غور کیجئے کہ ان قواعدکو اگر پلٹ دیا جائے تو کیا ہوگا؟ فرض کریں کہ ایک ریاستی حکومت وزیراعظم پر اپنے علاقائی دائرہ اختیار میں کسی جرم کے ارتکاب کا الزام عائد کرتی ہے اور اسے گرفتار کرتی ہے اور مجسٹریٹ وزیراعظم کو پولیس یا عدالتی تحویل میں بھیج دیتا ہے، ایسے میں ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہوں گے۔