دفاعی شعبہ کو خود مکتفی بنانے کی مساعی

   

آزارِ تمنا تو رہے دل میں سلامت
یہ سلسلۂ آہ و بکا اور بڑھادے
دفاعی شعبہ کو خود مکتفی بنانے کی مساعی
ہندوستان میں کچھ برسوں سے دفاع کے شعبہ کو خود مکتفی بنانے اور ہندوستان ہی میں دفاعی پیداوار کو یقینی بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ حالات کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق ہندوستان بیرونی ممالک سے اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرتا رہا ہے ۔ چھوٹے موٹے ساز و سامان سے لے کر لڑاکا طیاروں تک بیرونی ممالک سے حاصل کئے گئے ہیں۔ گذشتہ دنوں بھی رافیل طیارے فرانس سے ہندوستان پہونچ گئے ہیں اور ان کی مزید کھیپ بھی ہندوستان پہونچنی ہے ۔ ہندوستان جنوبی ایشیا کی ایک بڑی طاقت ہے اور معاشی میدان میں دنیا بھر میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بھی ہے ۔ اس معاملہ میں ہندوستان کو دفاع کے شعبہ میں خود مکتفی ہونے کی ضرورت تھی اور اب اس پر توجہ دی جانے لگی ہے ۔ ویسے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت پہلے ہی اسٹارٹ اپ انڈیا اور میک ان انڈیا مہم کا اعلان کیا تھا لیکن یہ صرف اعلانات رہے تھے اور ان کو آگے بڑھانے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی اس معاملہ میں کوئی نشانہ مقرر کیا گیا تھا ۔ کورونا وباء کے دوران ملک میں 20 لاکھ کروڑ کے معاشی پیاکیج کے اعلان کے وقت وزیر اعظم نے آتم نربھر بھارت پہل کا بھی اعلان کیا تھا لیکن اس کی تفصیلات کا ابھی تک کوئی خلاصہ پوری طرح سے نہیں ہوا ہے ۔ اب اسی آتم نربھر بھارت اور میک ان انڈیا مہم پر توجہ دینے کے مقصد سے دفاع کے شعبہ کو خود مکتفی بنانے اور دفاعی ضروریات کی اندرون ملک ہی تکمیل کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ اس کیلئے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی جانب سے تقریبا 101 ایسی اشیا کے بیرونی ممالک سے حصول اور در آمد پر پابندی عائد کردی گئی ہے جو دفاع کے شعبہ میں استعمال ہوتی ہیں ۔ ان اشیا کو بیرونی ممالک سے حاصل کرنے پر وزیر دفاع کی جانب سے پابندی عائد کی گئی ہے ان میں بھاری ہتھیار‘ اسلحہ وغیرہ بھی شامل ہیں اور راڈار ‘ لڑاکا ہیلی کاپٹرس وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ اب تک بھی یہ اشیا بیرونی ممالک کی مختلف فرمس سے حاصل کی جاتی رہی ہیں اور ان پر لاکھوں کروڑ روپئے کے اخراجات بھی ہوتے رہے ہیں۔ تاہم اب یہ اشیا در آمد نہیں کی جائیں گی ۔
وزیر دفاع نے یہ واضح کیا ہے کہ جن اشیا کی درآمد پر روک لگادی گئی ہے ان کی ہندوستان میں تیاری پر توجہ دی جائے گی ۔ اس کے نتیجہ میں ہندوستانی کمپنیوں اور فرمس کیلئے مواقع دستیاب ہونگے اور آئندہ چھ تا سات برس میں ہندوستانی کمپنیوں وغیرہ کو تقریبا 4 لاکھ کروڑ روپئے کے آرڈرس دئے جائیں گے ۔ اس کے نتیجہ میں ہندوستان میں پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے اور ساتھ ہی ملازمتوں کے مواقع بھی دستیاب ہوسکتے ہیں۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کام میں پوری شفافیت اختیار کی جائے ۔ چند مخصوص کارپوریٹ گھرانوں کو نوازنے کی پالیسی کو تر ک کرتے ہوئے اعلی معیار اور کم قیمت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کام کیا جانا چاہئے۔ اس معاملہ میں چند مخصوص کارپوریٹس کو ہی مواقع فراہم کرنے کے علاوہ نئے اسٹارٹ اپس کو بھی آزمایا جاسکتا ہے اور انہیں بھی مواقع دئے جانے چاہئیں۔ ملک کی دفاعی ضروریات کے معاملہ میں کسی طرح کا سمجھوتہ کئے بغیر اعلی سے اعلی معیار کو ہی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور اس میں کسی طرح کی اقرباء پروری یا حاشیہ برداری کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ یہی نہیں بلکہ دیگر شعبہ جات میں بھی اسٹارٹ اپس کو مواقع فراہم کرتے ہوئے ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جانا چاہئے اور جو کارپوریٹس پہلے سے مواقع حاصل کرتے رہے ہیں صرف انہیں پر اکتفاء کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ ملک میں ایک جامع اور شفاف پالیسی اختیار کرنے پر ہی توجہ دی جانی چاہئے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے نوجوان انتہائی با صلاحیت ہیں۔ ان میں اختراعی اور فنی مہارت کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ماہرین سے ہمارے نوجوان بھی مسابقت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہی ملک کے نوجوان ہیں جو اپنے ملک میں مواقع نہ ملنے پر دوسرے ممالک میں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ اگر انہیں اپنے ہی ملک میں مواقع فراہم کئے جائیں اور صرف بہترین صلاحیتوں کو ہی معیار بنایا جائے تو ہمارے ملک کے نوجوان مثالی کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی دفاعی شعبہ کو خود مکتفی بنانے کی پہل اچھی علامت ہے تاہم میں مکمل شفافیت اور غیر جانبداری سے کام کرنا لازمی ہوگا ۔