دلیپ صاحب ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

   

محمد ریاض احمد

متحدہ ہندوستان کی تاریخ میں 11 ڈسمبر 1922ء اور ہندوستان کی تاریخ میں 7 جولائی 2021ء کو بہت اہمیت کے ساتھ رقم کیا جائے گا۔ 11 ڈسمبر 1922ء کی تاریخ اس لئے بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اسی دن موجودہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختوانخوا (سابق صوبہ سرحد) کے دارالحکومت پشاور کے قصہ خوانی بازار میں خشک میوہ جات کے ایک تاجر غلام سرور خاں اور عائشہ بیگم کے گھر ایک انتہائی خوبصورت لڑکے کی پیدائش ہوئی اور مانباپ نے اپنے نور نظر کا نام ’’محمد یوسف خاں‘‘ رکھا تھا اور اس بچے نے ساری دنیا میں دلیپ کمار کے نام سے شہرت پائی۔ کوئی دلیپ کمار کو اداکاری کا ادارہ کہتا تو دنیا بھر کے شائقین اپنے محبوب اداکار کو ’’شہنشاہ جذبات‘‘ کے نام سے پکارتے، کسی نے اس عظیم اداکار کو ’’اداکاری کا مقدس پیالہ ‘‘ قرار دیا۔ بہرحال ہم دو اہم تاریخوں کی بات کررہے تھے۔ ایک تاریخ تو ان کی پیدائش کی تھی اور دوسری تاریخ ان کے یوم وفات کی ہے۔ 7 جولائی 2021ء کی صبح ٹوئٹر پر دلیپ کمار کے قریبی ساتھی اور معالج ڈاکٹر جلیل پارکر کے ایک ٹوئٹر نے سارے ہندوستان اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دلیپ کمار کے مداحوں کو غم کے سمندر میں ڈبو دیا۔ ڈاکٹر پارکر نے ٹوئٹ کیا تھا ’’انتہائی افسوس کے ساتھ میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ چند لمحات قبل ہمارے پیارے دلیپ صاحب انتقال کرگئے ہیں۔ ہم اللہ کے بندے ہیں اور ہمیں اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ اِنا لِلہ واِنا اللہ رَاجِعون ۔ اس ٹوئٹ کے عام ہوتے ہی فلمی دنیا سے لے کر زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ لوگوں پر ایک سکتہ طاری ہوگیا۔ ہر کسی کی زباں پر دلیپ صاحب کی پرکشش شخصیت، غیرمعمولی اندازِ بیان، دلوں کو چھو لینے والی مسکراہٹ، نظروں کو حیران کرنے والا ذوق لباسی، دلوں کو جیتنے والے الفاظ غرض ان کی تمام خوبیوں تھیں اور ہر کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ ’’آج اداکاری کا ادارہ خاموش ہوگیا ہے‘‘۔ اس صدی کے بہترین اداکار قرار دیئے گئے۔ امیتابھ بچن نے ہمیشہ دلیپ کمار کے بارے میں یہی کہا کہ دلیپ صاحب اداکاری کا ادارہ ہیں، ہم ان کے سامنے کچھ نہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر ہر چھوٹے بڑے اداکار اور عام ہندوستانی شہریوں نے بھی اپنے محبوب اداکار کے بارے میں بہت کچھ کہا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دلیپ صاحب کی موت صرف ان کی موت نہیں بلکہ ہمارے خیال میں فن اداکاری کی موت ہے۔ تقریباً 7 دہوں پر محیط اپنے فلم کیریئر میں انہوں نے زائد از 65 فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن ان کی زندگی میں اگر کسی نے انقلاب برپا کیا تو وہ دیویکا رانی ہے۔ دلیپ کمار خود دیویکا رانی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے جب ان کا نام ’’یوسف خان‘‘ سے بدل کر ’’دلیپ کمار‘‘ رکھنے کا فیصلہ کیا تو تب ان کی زبان گنگ ہوگئی تھی، دماغ شل ہوگیا کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ دیویکا رانی بار بار یہ پوچھ رہی تھی کہ آیا آپ کو یہ نام پسند آیا یا نہیں لیکن لنچ کے دوران دلیپ کمار ان ہی سوچوں میں گم تھے کہ ایس مکرجی نے ان سے سوال کردیا کہ آج تم بہت پریشان لگ رہے ہو تو دلیپ کمار نے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی جس پر ایس مکرجی کا یہ جواب تھا کہ دیویکا رانی نے اچھا نام تجویز کیا ہے کیونکہ اشوک کمار جیسے اداکار کا حقیقی نام کمت لال کنجی لال گنگولی تھا لیکن دنیا میں انہوں نے اشوک کمار کے نام سے شہرت پائی ۔ اس طرح مردانہ حسن کے پیکر یوسف خاں، دلیپ کمار کی حیثیت سے فلمی دنیا میں نمودار ہوئے اور پھر 1944ء میں فلم ’’جوار بھاٹا‘‘ سے اپنے فلم کیریئر کا آغاز کیا، اس فلم میں فلمساز دیویکا رانی خود ہیروئن تھیں، تاہم فلم زیادہ مقبول نہیں ہوئی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ لوگوں نے دلیپ کمار کے کام کو نظرانداز کردیا یا اس پر توجہ نہیں دی لیکن 1947ء میں فلم ’’جگنو‘‘ نے راتوں رات دلیپ کمار کو اداکاری اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس فلم میں دلیپ کمار کے مقابل ملکہ ترنم نور جہاں نے اداکاری کی تھی۔ دلیپ کمار کی یہ پہلی ہٹ فلم تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب 1949ء انہوں نے اپنے قریبی دوست راجکپور اور نرگس کے ساتھ فلم ’’انداز‘‘ میں اداکاری کی اور اس فلم نے دلیپ کمار کو بالی ووڈ کا بڑا اداکار بنا دیا۔ راجکپور اور دلیپ کمار میں بہت گہری دوستی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں اداکاروں کا تعلق پشاور سے تھا، دونوں کی پیدائش بھی پشاور میں ہوئی تھی۔ اپنے فلم کیریئر کے دوران دلیپ کمار نے نہ صرف ہندوستانی فن اداکاری یا ہندوستانی فلم دنیا بلکہ عالمی فلم دنیا پر ایک طرح کا احسان کیا ہے۔ انہوں نے ’’مغل اعظم‘‘ جیسی تاریخی فلم اپنے مداحوں کو دی ہے۔ آج بھی پرتھوی راج کپور، دلیپ کمار اور اجیت نے ’’مغل اعظم‘‘ میں جو ڈائیلاگ ادا کئے تھے، اسے لوگ دہراتے ہیں۔ اسی طرح آج بھی ہندوستانی فلمی دنیا کا ہر اداکار یہ کہتا ہے کہ دیوداس کا کردار جس طرح دلیپ کمار نے نبھایا تھا، اس طرح کا کردار نبھانے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ حالانکہ کنگ خان یعنی شاہ رخ خاں نے بھی دیوداس کا کردار ادا کیا لیکن وہ بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ میں دلیپ صاحب جیسا دیوداس نہیں بن سکا۔ نیا دور، آن، گنگا جمنا، رام اور شیام، مدھومتی، کوہِ نور، کرانتی، ودھاتا، شکتی، کرما، مشعل،دیوداس ، سوداگر جیسی فلموں میں انہوں نے جو اداکاری کی ہے اسے اداکاری کا لاثانی نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ انہیں آخری مرتبہ 1998ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی فلم ’’قلعہ‘‘ میں دیکھا گیا تھا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس فلم سے 7 سال پہلے فلم ’’سوداگر‘‘ میں دلیپ صاحب نے راجکمار کے ساتھ کام کیا تھا۔ دلیپ صاحب کے بارے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان کے ساتھ جن اداکاروں نے بھی کام کیا، چاہے وہ راجکپور ہو، دیوآنند، منوج کمار، راجکمار یا پھر امیتابھ بچن، دلیپ صاحب نے اس قدر غیرمعمولی اداکار کی ، کے تمام کے تمام ان کا کسی بھی طرح مقابلہ نہ کرسکے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دلیپ کمار ایک اچھے گلوکار بھی تھے۔ انہوں نے اپنی فلم ’’مسافر‘‘ کے گانے خود گائے تھے۔ فلم ’’مشعل‘‘ جس میں وحیدہ رحمن ان کی ہیروئن تھی، دلیپ صاحب نے ایک دیانت دار، نڈر و بے باک صحافی کا کردار ادا کیا تھا۔ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں دلیپ صاحب کی اداکاری کا وہ منظر محفوظ ہے جب وہ اپنی مر رہی بیوی کو بچانے مدد کیلئے چیختے ہیں اور چلاتے ہیں۔ جہاں تک فلمی صنعت کا سوال ہے، یہاں چڑھتے سورج کی پوجا ہوتی ہے، ایوارڈس کو اہمیت دی جاتی ہے، لیکن دلیپ صاحب کا یہ حال تھا کہ وہ کسی اعزاز یا کسی ایوارڈ کیلئے بھی اعزاز ہوا کرتے تھے۔ بہترین اداکاری کا فلم فیر ایوارڈ حاصل کرنے والے وہ پہلے اداکار تھے۔ دلیپ صاحب نے 8 مرتبہ یہ ایوارڈ حاصل کیا۔ بہ الفاظ دیگر دلیپ کمار نے 8 مرتبہ فلم فیر ایوارڈ کو ایک اعزاز بخشا ہے۔ ہندوستان میں اولین میتھڈ ایکٹر ہونے کا کریڈٹ بھی دلیپ صاحب کو جاتا ہے۔ دلیپ صاحب نے 1994ء میں ’’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘‘ حاصل کرتے ہوئے خود اس ایوارڈ کو اعزاز عطا کیا۔ 1991ء میں حکومت ہند نے ’’پدم بھوشن‘‘ اور 2015ء میں ’’پدما ویبھوشن‘‘ اعزاز سے نوازا حالانکہ ان کی حیات میں ہی ’’بھارت رتن‘‘ دیا جانا چاہئے تھا جس سے ’’بھارت رتن‘‘ جیسے اعزاز کے اعزاز میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دلیپ کمار ہند۔ پاک دوستی کے کٹر حامی تھے اور جب بھی دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان کچھ تنازعہ پیدا ہوتا تو حکومت ہند انہیں عقبی دروازہ کی سفارت کاری کا ذریعہ بناتی ہے، ایسا ہی کچھ کارگل جنگ کے دوران ہوا تھا اور اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے کہنے پر دلیپ کمار نے اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے بات کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کو جب فون پر شہنشاہ جذبات دلیپ کمار سے بات کروائی گئی تب وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے لیکن یوسف خاں کا نام سن کر بطور احترام کھڑے ہوگئے اور کچھ دن بعد کارگل جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔ پاکستان میں بھی دلیپ قابل احترام تھے اور فی الوقت حکومت پاکستان پشاور کے قصہ خوانی بازار میں واقع ان کے آبائی مکان کو ایک میوزیم میں تبدیل کررہی ہے۔ واضح رہے کہ 1998ء میں حکومت ِ پاکستان نے دلیپ کمار کو اپنے ملک کا اعلیٰ ترین سیویلین ایوارڈ ’’نشان امتیاز‘‘ عطا کیا تھا۔
ان کی شخصی زندگی کے بارے میں جو قصے کہانی منظر عام پر آئیں، ان کے مطابق اداکارہ مدھو بالا سے اُن کا عشق بہت زیادہ مشہور ہوا لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود دونوں ایک نہیں ہوسکے۔ ہاں! ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ قدرت نے شریک حیات کی حیثیت سے دلیپ کمار کیلئے سائرہ بانو کا نام لکھ دیا تھا چنانچہ 1966ء میں سائرہ بانو سے ان کی شادی ہوئی اور سائرہ بانو ان سے عمر میں 22 سال چھوٹی تھی۔ 1981ء میں ان کے ساتھ ایک عجیب و غریب حادثہ پیش آیا اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی اسماء کے ساتھ ان کی شادی ہوئی۔ اس شادی کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا، لیکن یہ شادی جنوری 1983ء کو اپنے اختتام کو پہنچی۔ دلیپ کمار اور سائرہ بانو لاولد رہے اور ہمیشہ انہوں نے اپنے لاولد رہنے کو یہی کہہ کر قبول کیا کہ ’’یہ اللہ کی مرضی ہے‘‘۔ بہرحال سائرہ بانو نے ان کی آخری سانس تک ساتھ دیا اور شاید وہ ہندوستان میں ایک مثالی بیوی کی حیثیت سے جانی جائیں گی۔ دلیپ کمار اُردو، ہندی، پشتو، پنجابی، مراٹھی، انگلش، بنگالی، گجراتی، ہنڈکو، فارسی، اودھی اور بھوجپوری جیسی زبانوں میں غیرمعمولی عبور رکھتے تھے۔ حیدرآباد سے بھی ان کا قریبی تعلق رہا۔ وہ وقفہ وقفہ سے حیدرآباد آیا کرتے تھے۔ دارالسلام میں منعقدہ ایک مشاعرہ میں انہوں نے خمار بارہ بنکوی کا کلام سنایا تھا۔ اسی طرح رویندرا بھارتی تھیٹر میں منعقدہ تقریب میں اپنے منفرد انداز میں ذوقؔ کا کلام سناکر دادِ تحسین حاصل کی تھی۔ اس تقریب میں انہوں نے 45 منٹ تک خطاب کیا تھا۔ حیدرآباد کے ایک مشاعرہ میں جب دلیپ کمار اور سائرہ بانو پہنچے تب سعید شہیدی کلام سنا رہے تھے، لوگوں نے ان سے بے توجہی برتتے ہوئے اپنی نگاہیں دلیپ کمار پر مرکوز کردیں تب دلیپ کمار کو مشاعرہ میں بدنظمی کا احساس ہوا انہوں نے سعید شہیدی سے اپنا کلام جاری رکھنے کی استدعا کی۔ تب حضرت سعید شہیدی نے یہ برجستہ شعر کہا تھا:
اب کیا غزل سناؤں تجھے دیکھنے کے بعد
سَر کس طرف جھکاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
mriyaz2002@yahoo.com