دولتمند ہندوستان کی چکا چوند

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ہمارا میڈیا آج کل ایسے شہروں کے تذکروں میں مصروف ہے جو متمول یا دولتمند ہندوستان کے شہر ہیں ، ٹاؤن ہیں ۔ دولتمند ہندوستان کا جہاں تک سوال ہے اسی وقت ہندوستان دولتمند ہوتا ہے جب یہاں کے افراد کی سالانہ آمدنی 10 ہزار امریکی ڈالرس یا تقریباً 8,40,000 روپئے ہو ۔ ہمارے ملک میں میڈیا کے مطابق اس طرح کے لوگوں کی کمی نہیں ہے ۔ میڈیا ان دعوؤں پر زور دے رہا ہے کہ سالانہ آمدنی عقل کو حیران کرنے والی CAGR بڑھ رہی ہے ، سالانہ آمدنی کی کھپت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ سالانہ آمدنی میں اضافہ کا مطلب عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ جب عوام کی سالانہ آمدنی میں اضافہ ہوگا تب عوام مختلف اشیاء خریدنے لگیں گے ۔ سالانہ آمدنی ہندوستان کی معیشت کو سال تک ( ابھی تک جس کا تعین نہیں کیا گیا کیونکہ گول پوسٹ مسلسل تبدیل ہورہی ہے ) 6 کھرب ڈالرس کی معیشت بنادے گی ۔ میں سالانہ آمدنی کیلئے بہت خوش ہوں ۔ گولڈ میان سیاش کی رپورٹ کے مطابق سال 2026 ء تک سالانہ آمدنی کا حجم یا سائیز 100 ملین ( 10 کروڑ ) یا ہندوستان کی آبادی کا تقریباً 7 فیصد ہوگا ۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Goldman Sachs سالانہ آمدنی کے بارے میں فکرمند کیوں ہے ؟ مابقی ہندوستانی عوام (93 فیصد ) کیلئے فکرمند کیوں نہیں ہے کیونکہ گولڈ میان سیاش دولتمندوں کی ایک بینک ہے ۔ اگر سالانہ آمدنی ایک الگ ملک ہوتا تو AI ایک اوسط آمدنی والا ملک ہوتا اور دنیا میں 15 واں سب سے بڑا ملک یہ دولتمند ہندوستانی ہیں ( قابل احترام استثنیٰ کے ساتھ ) جو اپنی آمدنی دولت کی بچت کرتے ہیں ، خرچ کرتے ہیں ، سرمایہ مشغول کرتے ہیں ، اسراف کرتے ہیں ، فضول خرچی کرتے ہیں اور اپنی آمدنی دولت اور ہر چیز کے لئے شور مچاتے ہیں ۔ جب سالانہ آمدنی … خریدتی ہے ، استعمال کرتی ہے تو یہ ایک وہم پیدا کرتا ہے کہ تمام ہندوستانی خریدتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں ۔ سالانہ آمدنی تمام ہندوستان کیلئے متبادل بن گئی ہے ۔ مابقی 93 فیصد اوسط آمدنی حاصل کرتے ہیں یا کمائی کرتے ہیں اور بعض مطمئن زندگی گذارتے ہیں جبکہ اکثریت دونوں کاموں کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔
بالائی نصف اور زیریں نصف : آئیے آمدنی کی نشاندہی کرنے والے تین روایتی نمبروں کو واضح کریں ۔ جہاں تک دولتمند ہندوستان کا سوال ہے اس میں فی فرد کی سالانہ آمدنی 8,40,000 ، جبکہ اوسطً سالانہ آمدنی 3,87,000 ہے اسی طرح فی کس اوسط این این آئی 1,70,000 ہے ۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اس طرح کی سالانہ آمدنی رکھنے والوں کی قلیل تعداد ہے جبکہ فی کس اوسط این این آئی (Net National Income) بے معنی ہے کیونکہ سالانہ آمدنی اوسط کو اوپر کی طرف کھینچتی ہے جبکہ زیادہ متعلقہ اعداد و شمار اوسط یا درمیانی آمدنی ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ ہندوستانی آبادی کے نصف حصہ ( 71 کروڑ ) کی سالانہ آمدنی 3,87,000 روپئے ہے یا اس سے کم ہے یا پھر ماہانہ 32 ہزار یا اس سے بھی کم ہے ۔ اگر آپ معیشت کی سیڑھی کی نچلی جانب جائیں گے تو آمدنی کم ہوگی ۔ ایسے میں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آبادی کی نچلی سطح کے 10 فیصد یا 20 فیصد حصہ کی ماہانہ فی کس اوسط آمدنی 6000 روپئے ہوگی جبکہ آبادی کی نچلی سطح 11-20 فیصد کی فی کس اوسط ماہانہ آمدنی 12000 ہوگی ۔ آبادی کے یہ حصہ جس حالت میں رہ رہے ہیں اس بارے میں ہمیں فکرمند ہونا چاہئے۔ وہ جس قسم کی غذا کھاتے ہیں، نگہداشت صحت کی جن سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں اس پر بھی ہمیں فکرمند ہونا چاہئے ۔ UNDPS کے ہمہ جہتی غربت عشاریہ کے مطابق ہندوستانی آبادی میں سے 22.8 کروڑ لوگ یا تقریباً 10 فیصد خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں ( نیتی آیوگ میں یہ 11.28 فیصد یا 16.8 کروڑ ہے ) ۔
یہاں ایک بات ضرور ہے کہ ہندوستان میں 7 کروڑ افراد کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ لوگ ہندوستان کے دولتمند لوگ ہوں گے ، اس کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان لوگوں کی تکالیف محسوس کرنا چاہئے جو غربت کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور غریبوں کی نشاندہی یا شناخت بھی کوئی مشکل نہیں۔
< 15.4 کروڑ سرگرم اور MGNREGS کے تحت درج کردہ مزدور یا محنت کش جن سے سال میں 100 دن کام دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اُنھیں بڑی افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ 5 برسوں میں سالانہ اوسطً صرف 49-51 دن کام دیا گیا ۔
< اکثر استفادہ کنندگان جنھیں ایل پی جی کنکشن دیا گیا لیکن کیا وہ سال میں اوسطً صرف 3-7 ایل پی جی سلینڈرس کے متحمل ہوسکتے ہیں ۔
< 10.47 کروڑ کسانوں میں سے ایسے کسان جو 1-2 ایکڑ اراضی سے بھی کم کے مالک ہیں یا اُس پر کاشت کرتے ہیں ( یہ تعداد 15نومبر 2023 تک کم ہوکر8.12 کروڑ ہوگئی) اور جنھوں نے فی سال 6000 روپئے کسان سمان حاصل کیا ۔
< زیادہ تر یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدور جو زرعی مزدور کی حیثیت سے مصروف ہیں ۔
< بے گھر و بے آسرا لوگ جو فٹ پاتھوں پر ہوتے ہیں یا پلوں کے نیچے رہتے ہیں ۔
< وظیفہ پیرانہ سالی حاصل کرنے والی زیادہ تر تنہا خواتین۔
< زیادہ تر وہ لوگ جو صاف صفائی خاص طورپر موریوں ، ڈرینج اور عوامی بیت الخلاء صاف کرتے ہیں ، جانوروں کی کھال اُتارتے ہیں ، جوتے ، چپل ، سینڈلس وغیرہ بناتے ہیں یا درست کرتے ہیں وغیرہ ۔
واضح رہے کہ 21-50 متعدد ایسے لوگوں کی جو اوسط آمدنی سے کم کمائی کرتے ہیں ۔ آمدنی کی نچلی 20 فیصد سطح سے تعلق رکھنے والوں سے کچھ بہتر ہے ۔ وہ بھوکے نہیںرہتے یا بے آسرا نہیں ہوتے ، ان کے سروں پر چھت ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہا جاسکتاہیکہ وہ غیر یقینی کے بالکل کنارے پر ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر خانگی ملازمتوں میں جاب سیکوریٹی نہیں ہوتی یا سوشل سیکوریٹی کے فوائد نہیں ہوتے ۔ مثال کے طور پر 2.8 کروڑ گھریلو ملازمین نے حکومت کے e-shram پورٹل پر اپنے ناموں کا اندراج کروایا ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو اقلت رین اجرتیں حصال کرنے سے بھی قاصر ہیں ۔ (حقیقی تعداد کئی گنا زیادہ ہے) سرکاری اور پبلک سیکٹر ملازمتوں کے سواء کسی اور شعبہ کے ملازمین کی حالت ٹھیک ٹھاک نہیں ہے، انہیں ہر وقت ملازمتوں سے محرومی کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 2023 ء میں صرف ٹکنالوجی کمپنیوں نے اسے 260000 ملازمین کو ملازمتوں سے نکال دیا جو انتہائی قابل تھے۔ 100 اسٹارٹ اپس نے 24000 ملازمین کو رخصت کردیا ۔ یہاں ایک بات کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی حکومت میں صرف اور صرف دولت مندوں اور صنعت کاروں کا فائدہ ہوا۔