دُنیا کو ہے اس مہدیٔ برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالمِ اَفکار (اتحاد زندگی ، انتشار موت )

   

ڈاکٹر محمد سراج الرحمن فاروقی

تاریخِ ہندوستان کے مایہ ناز خطیب، امام الہند، مفسر قرآن، آزاد ہند کے پہلے وزیرتعلیم مولانا ابوالکلام آزادؒ نے جب ہند کا بٹوارہ ہورہا تھا تب جامع مسجد دہلی کے منبر سے خطبہ جمعہ دیتے ہوئے مسلمانوں کی کمر ہمت باندھتے ہوئے کہا ’’لوگو! تم کدھر جارہے ہو، کیا تم نے نماز فجر کا وضو اسی جامع مسجد میں نہیں کیا، کیا لال قلعہ، قطب مینار، تاج محل تمہارا بنایا ہوا نہیں ہے، تو پھر عہد کرو، یہ ملک ہمارا ہے، ہم اس کے لئے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔

مولانا آزادؒ کو جب انگریزوں نے بنگال سے باہر کیا اور رانچی کی جیل میں 3 سال تک قید رکھا تو آپؒ رانچی کی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتے جس میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی۔ ان کے خطبہ کے ولولہ و جذبہ کا یہ عالم تھا، اس جمعہ کے خطبہ کو سننے کیلئے غیرمسلم برادران وطن (ہندو بھائی) بھی مسجد کو آتے ہیں جس کیلئے علیحدہ کمرے کا انتظام کیا گیا تھا۔ تاریخ ہند کا یہ پہلا واقعہ تھا جس میں خطیب کے خطبہ کو سننے غیرمسلم بھی آیا کرتے تھے۔ ہندو۔ مسلم اتحاد کا یہ منفرد اعزاز مولانا آزاد کو حاصل تھا۔ مولانا آزاد نے انگریزوں کی ’’پھوٹ ڈالو، حکومت کرو‘‘ (Divide and Rule) کی پالیسی کی شدت سے مخالفت کی تھی۔ وہ ہندو ۔ مسلم اتحاد کے مینارۂ نور تھے۔ تبھی تو مہاتما گاندھی، مولانا آزادؒ کی رائے کو پنڈت نہرو کی رائے پر مقدم رکھتے تھے۔ افسوس! کہ آزاد ہند کو UGC، IIM، IIT دینے والے اس مایہ ناز مجاہذ آزادی ہندو ۔ مسلم اتحاد کے علمبردار کی کاوشوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ ان کی یوم پیدائش میں سکیولرازم کا ڈھونگ رچنے والی جماعتیں، نہ کوئی ادارہ اور نہ کوئی حکومت سنجیدہ نظر آتی ہے۔ ستم بالائے ستم آزادی کے پورے پون صدی (73 سال) گزرنے کے بعد بھی ہم ہندو۔ مسلم رسہ کشی، فرقہ واریت کے شکنجے میں نت نئے قوانین سے پھانسے جارہے ہیں۔ دستور ہند میں اقلیتی آزادی کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہے۔ موجودہ مرکزی حکومت کے سات سال میں مذہبی رواداری کا مذاق اُڑا دیا گیا جس کے احاطہ کیلئے طویل مدت دفاتر درکار ہیں۔ خاص کر جب انتخابات کا دور چاہے ریاستی ہو یا مرکزی، مذہبی فرقہ وارانہ بازار گرم کرنا اور منافرت کے بے حساب واقعات اب بالکل عام بات ہوچکی ہے۔ خاص کر اب اگلے چند ماہ میں ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے انتخابات ہونے کو ہیں جہاں 70 سے زیادہ اسمبلی حلقہ جات ایسے ہیں جہاں مسلم اقلیت کا پلہ بھاری ہے اور مسلم ووٹ جیت کیلئے فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ یہاں کا اقلیتی طبقہ اچھے برے ، مخلص اور غیرمخلص جماعتوں کا ایجنڈہ نہیں جانتا اور خواب غفلت کا یہ عالم ہے کہ اس کے ووٹ بٹ جاتے ہیں۔ یہ بہ آسانی اپنی قوت کو بکھیر کر سمندر کے جھاگ کی طرح بے وزن، بے حیثیت ہوجاتے ہیں۔ ووٹوں کی تقسیم کے منظم منصوبے ہوتے ہیں۔ اقلیتی لبادہ اوڑھ کر دھوکہ دیا جاتا ہے۔ ان اقلیتوں کو مغربی بنگال کے نتائج سے اتحاد کا رائے ہندوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے بلکہ امت کے ذمہ داروں کو اپنا مستقبل پرسکون گزارنا ہو تو اپنے حلقوں میں متحدہ جدوجہد کو لازمی طور پر کرتے ہوئے فرقہ وارانہ طاقتوں کی اقلیتوں کو اپنے ووٹ کا توازن یک رخی کرتے ہوئے دندان شکن جواب دینا ہے، ورنہ آنے والے دن بہت سنگین حالات درپیش ہوں گے۔ اترپردیش میں مسلم دشمنی کے واقعات کی لمبی فہرست ہے، لیکن اب یہ ان میں شدت قابل تشویش ہے۔ افسوس کہ ان واقعات کا نوٹ امریکی حکومت UHIRC لے کر مذمت کررہی ہے، لیکن حکومت ہند، وزارت داخلہ کی آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑے ہیں۔ لگتا ہے کہ ایسا ماحول پیدا کرنے کیلئے انہوں نے خود ہری جھنڈی دکھائی ہے جس کی کھلی وضاحت ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سربراہ نائلہ محمد کرتے ہوئے کھل کر مذمت کی۔ یوپی میں ظلم و بربریت کے قوانین، سوریہ نمسکار، لو جہاد، گھر واپسی، مسلم نوجوانوں پر ہجومی تشدد، پچھلے سال CAA میں شامل مسلم خواتین پر اندھادھند لاٹھی چارج کے زخم ابھی بھولے بھی نہیں تھے کہ اب مساجد کو شہید کیا جارہا ہے۔ بابری مسجد کے فیصلہ کا المیہ سب جانتے ہیں۔ جہاں عدلیہ نے حق داروں کے حقوق کو پامال کردیا تھا۔ سری رام جی کے بھکتوں نے تو اب اس مندر کی تعمیر کو بڑا اسکام بنادیا۔ کروڑوں کی سرمایہ کاری کے غبن کی آوازیں میڈیا میں آرہی ہیں۔ یہ ایک بڑا گھٹالہ ہے۔ اب ان کے ناپاک عزائم گیان واپی مسجد پر بدنظری، مساجد بارہ بنکی (70 سالہ قدیم) کی شہادت، متھرا کی مسجد میں راتوں رات توڑ پھوڑ، مینار کی شہادت وغیرہ حکومت کی پشت پناہی میں ہونے والے منظم واقعات ہمیں بتا رہے ہیں کہ انتخابات کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر بھگوا تنظیمیں کامیاب ہونے کے ہتھکنڈے اپنا رہی ہیں۔ دراصل عوام (مسلم اقلیت) اب کی بار اُنہیں متحد ہوکر سبق سکھائیں گے۔ ظالم کا ظلم خود اس کی بربادی ہے۔ یہ اپنی قبر آپ کھود رہے ہیں۔ اب یہ مسلم اقلیتوں کو وطن پرستی کا درس دینے جارہے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں سے جو کچھ غلط فہمیاں جان بوجھ کر وقت بہ وقت پیدا کی جارہی ہیں، ان کو دور کرنا، بھائی چارگی کی فضاء قائم کرنا بھی امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے جس کیلئے بہترین راستہ دعوت دین حق کی محنت کا ہے۔ اس کو خود اپنی ضرورت سمجھ کر اس سے جڑ جانے میں تمام مسائل کا حل ہے۔ تاریخ اسلام گواہ ہے۔ تاتاری قوم کا زمانہ ہو یا بادشاہ اکبر کی شرپسندی (جسے مجدد الف ثانی ؒ نے کچل دیا تھا)۔ ہر دور میں امت کو نازک حالات میں دعوت دین کی محنت نے ہی سنبھالا ہے۔ جب ہم نے دعوت دین کی محنت سے غفلت و پہلوتہی کی اور اسے پس پشت ڈال دیا تو ملک کے اقتدار کی باگ ڈور دولت پرست، اقتدار پرست، توہم پرست، مادہ پرست، بددین بلکہ نفس پرستوں کے ہاتھوں میں دے دی گئی۔ ایسے حالات میں انگریزی، ہندی اخبارات کے ادارہ کے مطابق اندازہ بتاتا ہے کہ اکبری دور سے بھی زیادہ مسلمانوں یعنی تشخص کو بڑا نقصان ہونے والا ہے۔ ان کی شریعت محمدیؐ پر روک لگائی جائے گی۔ لباس، داڑھی کھٹکنے لگے ہیں، مدارس راستہ کا کانٹا نظر آرہے ہیں، مذہب (اسلام طرز زندگی) کے فروغ میں خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ مساجد کا وجود گراں گزر رہا ہے۔ تبھی تو اذانیں اب خلل اندازی لگ رہی ہیں۔

خالق کائنات سے دعا ہے کہ پھر سے ہمیں شیر و شکر کردے، پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات عام کرنے میں ہماری مدد اور نصرت شامل حال فرمادے۔ (آمین)