’’دِلوں میں رہنا سیکھو ، گھروں میں تو سب رہتے ہیں ‘‘ دلیپ صاحب کا پیغام

   

سید جلیل ازہر
خدا نے جب یہ زمین بنائی تھی تو کسے معلوم تھا کہ یہ کرۂ ارض ریت، پتھر اور مٹی کے ایک وسیع ترین مجموعے کے علاوہ بھی کچھ اور ہے۔ جب سمندر وجود میں آیا جب زمین اور آسمان کے بیچ خلا دکھائی پڑی تو کس کا ذہن گیا ہوگا کہ اس کے درمیان اَنگنت دنیائیں بھی تیر رہی ہیں مگر زمین کے اندر ناقابل قیاس حد تک قیمتی خزانے موجود ہیں اور سمندر بے پناہ دولت کا خزینہ اپنے سینے میں محفوظ کئے ہوئے ہے۔ اس طرح انسانی جسم کو بھی انسان کی کم علمی نے ہزاروں سال تک ہاتھ، پیر، آنکھ، کان اور ناک کا ایک سانس لیتا ہوا مجسمہ سمجھا مگر جیسے جیسے انسانی شعور بیدار ہوتا گیا، علم کا سرمایہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا گیا۔ انسانوں نے زمین، سمندر اور خلا کو بھی سمجھنے کی کوشش کی اور سب سے زیادہ اپنی ذات کے اندر چھپی ہوئی صلاحیت کی دولت کو اُجاگر کرتے ہوئے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ فلمی شعبہ میں اداکاری کے جو جوہر دلیپ کمار نے دکھائے ہیں، تاریخ اس کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
کہتے ہیں کہ ’شخص ‘نہیں ’شخصیت‘ بن کر رہو کیونکہ شخص تو خاک ہوجاتے ہیں، مگر شخصیت ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ فلمی دنیا کے معتبرو محترم اور مستند اداکار کئی دہوں سے اپنی بلند آہنگ و فکر انگیز شخصیت جس نے کروڑوں ذہنوں کو اپنی اداکاری کے ذریعہ متاثر کیا، وہ اداکار جو فلموں کا چلتا پھرتا اسکول تھا، جس نے اپنی اداکاری کے ذریعہ پوری دنیا کو ایسا پیغام دیا جس کو لوگ ’’شہنشاۂ جذبات‘‘ کے نام سے جاننے لگے۔ معمولی مقبولیت کسی بھی پیشہ میں کسی شخص کو مل جائے تو مخالفین کی فہرست میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے لیکن یوسف خاں یعنی دلیپ کمار ایک ایسی شخصیت تھی جن کی ہر اداکار عزت کیا کرتا تھا،۔ دلیپ صاحب کی سادگی بھی ساری فلم انڈسٹری میں ایک مثال رہی ہے۔ وہ فلمی اداکار ، شہرت نے جس کے قدموں میں سر رکھا، عظمت نے جس کی پیشانی کو بوسے دیئے، جن کی اپنی قابلیت کی کوئی حد نہیں ہی، فلموں میں تو ہدایت کار یا ڈائیلاگ رائٹر کے لکھے ہوئے مکالمہ پیش کرنا ہوتا ہے لیکن بذات خود دلیپ صاحب کی اُردو اور طرز تخاطب کی مثالیں قلمبند کی جائیں تو اخبار کے صفحات تنگ دامنی کا شکوہ کریں گے۔ میرے مطالعہ میں ان کی ایک تقریر جو 1974ء میں لندن کے البرٹ ہال میں لتا منگیشکر کے ایک پروگرام کے موقع پر لتا منگیشکر کی تعریف میں دلیپ صاحب کو کچھ اظہار خیال کرنے شہ نشین پر بلایا جاتا ہے اور دلیپ کمار انتہائی سکون سے لتا منگیشکر کو تعریف میں وقتی طور پر جو الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، وہ اس طرح کہ جس طرح سے پھول کی خوشبو یا مہک کا کوئی رنگ نہیں ہوتا، وہ محض خوشبو ہوتی ہے۔

جس طرح کے بہتے ہوئے پانی کے جھرنے یا ٹھنڈی ہواؤں کا کوئی مسکن یا کوئی گھر یا گاؤں وطن دیش نہیں ہوتا۔
جس طرح سے اُبھرتے ہوئے سورج کی کرنوں کا یا کسی معصوم بچے کی مسکراہٹ کا کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا۔ اسی طرح لتا منگیشکر کی آواز بھی قدرت کی تخلیق کا ایک کرشمہ ہے۔ انہیں کسی بھی محفل میں مہمان خصوصی بلایا جاتا تو وہ ہر موضوع پر بغیر کسی تیاری کے ایسے اظہار خیال کرتے کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے۔
ملک کے ایک مشہور شاعر نے شاید ان کی مقبولیت کے تناظر میں ہی یہ شعر کہے ہوں گے۔
نظر نظر میں اُترنا کمال ہوتا ہے
نفس نفس میں بکھرنا کمال ہوتا ہے
بلندیوں پہ پہونچنا کوئی کمال نہیں
بلندیوں پر ٹھہرنا کمال ہوتا ہے
دلیپ صاحب نے بلندیوں پر پہنچ کر بلندیوں پر ٹھہرا ہے۔ یہ واحد فلمی اداکار ہے جس نے فلمی سفر کے طویل عرصہ میں 65 سے زیادہ فلمیں سائن نہیں کی اور ایک دلچسپ پہلو اس شخصیت کے بارے میں ضرور قلمبند کروں گا کہ آج معمولی شہرت ملتے ہی کرکٹر ہو یا فلمی اداکار ہوں، کسی ایک کمپنی کے تیار کردہ ساز و سامان مثلاً تھمس اَپ ہوکہ موٹر گاڑی ہو یا کوئی بسکٹ کی پبلیسٹی ہو، وہ بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ دلیپ کمار نے کبھی تشہیر میں اپنے آپ کو پیش نہیں کیا۔ یہ ان کی بڑی خصوصیت تھی۔ ان کا انداز بیان بالخصوص ساری دنیا میں ان کی فلم مغل اعظم نے ایک تاریخ رقم کی ہے، اس فلم کے وہ مکالمہ جس کو عمر رسیدہ لوگ آج بھی دہراتے ہیں، کہ تقدیر بدل جاتی ہے، زمانہ بدل جاتا ہے، ملکوں کی تاریخ بدل جاتی ہے۔ شہنشاہ بدل جاتے ہیں، مگر اس بدلتی دنیا میں محبت جس انسان کا دامن تھام لیتی ہے، وہ انسان نہیں بدلتا۔
ان کی مقبولیت کے آغاز کے دور میں بنی فلم ’’نیا دور‘‘ جو 1957ء میں ریلیز ہوئی تھی، اس کے مکالمہ بھی آج بڑے بزرگ شائقین فلم محفلوں میں سناتے ہیں کہ جس کے دل میں دغا آجاتا ہے نا اس کی آنکھوں میں دیا کبھی نہیں آتی
فلم سوداگر کا یہ مشہور ڈائیلاگ کے حق ہمیشہ سَر جھکا کے نہیں سر اُٹھاکر مانگا جاتا ہے
فلم ’’کرما‘‘ میں ان کا یہ ڈائیلاگ کے ’’شیر کو اپنے بچوں کی حفاظت کیلئے شکاری کتوں کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔

’’وِدھاتا‘‘ کے یہ ڈائیلاگ بڑا آدمی بننا ہے تو چھوٹی حرکتیں مت کرنا‘‘۔
سب سے زیادہ ان کی فلم ’’دیوداس‘‘ نے بھی ایک تاریخ بنائی تھی جس میں ان کے یہ ڈائیلاگ ’’کون کم بخت ہے جو برداشت کرنے کیلئے پیتا ہے، میں تو پیتا ہوں کہ بس سانس لے سکوں‘‘۔
یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ مکالمہ نگار ڈائیلاگ فلم کیلئے لکھ تو دیتے ہیں لیکن اس کو ادا کرنے والی شخصیت ہی شائقین فلم کے دلوں پر چھا جاتی ہے۔ یہی یوسف خاں صاحب کی خوبی تھی، ان کی اپنی قابلیت اپنی جگہ ہدایت کاروں کی ہدایت اپنی جگہ، بیباک اور حساس شخصیت کی ایک بڑی خوبی تھی کہ ایک زمانہ میں بمبئی کے فسادات کے بعد ملک کے نامور صحافی ایڈیٹر ’’سیاست‘‘ جناب زاہد علی خاں صاحب نے سیاست فنڈ اکٹھا کرتے ہوئے پہلی قسط 10 لاکھ روپئے کی رقم بمبئی فسادات کے متاثرین کو روانہ کی تو جناب یوسف خاں نے ایڈیٹر سیاست کو فون پر اظہار تشکر کیا اور ساتھ ہی تحریری طور پر اپنے لیٹر ہیڈ پر ایک خط لکھا جس میں ’’سیاست‘‘ کے اس اقدام کی ستائش کی، وہ خط آج بھی روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے دفتر میں موجود ہے۔
قسمت نے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا، ایک وفادار شریک حیات جس نے آخری سانس تک دلیپ صاحب کے ساتھ رہیں جو وفاداری کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے، تاہم خدا کی کیا مرضی تھی کہ دلیپ کمار اولاد کی خوشی سے محروم رہے۔ دوسری طرف ان کی شریک حیات نے یوسف خاں کی آخری سانس تک جو خدمت کی ہے، اس کی بھی مثال نہیں دی جاسکتی۔ جب جب یوسف خاں کو شریک دواخانہ کیا گیا، وہ سائے کی طرح ساتھ رہیں اور مداحوں سے کہتی رہیں کہ ’’صاحب ! کیلئے دعا کریں، اب سائرہ بانو کیلئے :
ذرہ دیکھو دروازہ دل پہ دستک کون دے رہا ہے
محبت ہو تو کہہ دینا صاحب انتقال کرگئے