دکھ بھی لاسکتی ہے لیکن جنوری اچھی لگی

,

   

الوداع 2020 … کورونا اور بدحالی کا سال
حکمراں عوام سے بے پرواہ… 2021 ء سے خوشحالی کی امید

رشیدالدین
ہر نئے سال کے موقع پر دنیا بھر میں جشن کا اہتمام کیا جاتا ہے ، اس امید کے ساتھ کہ نیا سال خوشی اور ترقی کی نوید ثابت ہوگا۔ سال نو کی تقاریب کے ذریعہ عوام گزرے سال کے تلخ تجربات اور مشکلات کو بھلانے کی کوشش کرتے ہیں جس کا سال مصائب و مشکلات میں گزرا ، اس کا نئے سال سے بہتر کی توقع وابستہ کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن سال نو کے جشن سے ان کا تعلق نہیں ہوتا۔ جشن تو وہ مناتے ہیں جن کا سال اچھا گزرا اور مزید اچھائی کی توقع ہوتی ہے۔ قران مجید میں انسان کو ناشکرا کہا گیا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان بنیادی طور پر لالچی ثابت ہوا ہے۔ گزرے سال میں سب کچھ اچھا ہونے کے باوجود وہ آنے والے سال سے مزید بہتری کی امید وابستہ کرلیتا ہے۔ جس طرح اندھے کے لئے دن رات برابر ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح غریب کیلئے دن ، ہفتہ ، ماہ اور سال کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یوں تو دنیا نے کئی سال وداع کئے اور سال نو کا استقبال کیا لیکن تاریخ میں 2020 ء کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ کسی ایک ملک کے لئے نہیں بلکہ انسانیت کے لئے 2020 امتحان اور تباہی اور بربادی کا سال تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کو جلد سے جلد وداع کرنا چاہتے ہیں تاکہ ظلمتوں کی شام ڈھل جائے اور امیدوں کی سحر ابھرے۔ 2020 ء کے تجربات اور یادیں عوام کے لئے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں ہیں۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایک سال کے دوران عوام خوشی کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے تھے۔ 2020 ء کے آغاز کے بعد عوام سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ کورونا وباء نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ پھر کیا تھا ہلاکتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ موت کے خوف کے سائے ہر طرف منڈلانے لگے۔ ہندوستان کے لئے بھی 2020 کورونا وباء اور معاشی انحطاط کا سال ثابت ہوا۔ فروری میں کورونا نے ملک پر دستک دی لیکن حکومت نے توجہ نہیں دی جس کے نتیجہ میں مارچ تک کورونا نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ وہاں سے موت کا کھیل شروع ہوا اور ایک لاکھ سے زائد افراد لقمۂ اجل بن گئے ۔

حکومت نے کسی منصوبہ کے بغیر لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا جس نے معاشی سطح پر تباہی کے دروازے کھول دیئے۔ سال تمام تباہی اور بری خبروں کا سال رہا اور عوام کسی اچھی خبر کیلئے ترس گئے۔ اب جبکہ دنیا 2020 ء کو وداع کر کے 2021 ء کے استقبال کی تیاریوں میں ہے ، کورونا کی ایک نئی قسم کے وائرس نے دنیا میں نئے خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ عوام کیلئے نیا سال خوشی اور خوشحالی کا سبب بنے گا یا پھر تباہی کے نئے دور کا آغاز ہوگا، اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ملک میں جون تک لاک ڈاؤن کی صورتحال رہی جس کے بعد ان لاک سرگرمیوں کا بتدریج آغاز ہوا۔ اگرچہ عام زندگی معمول پر آچکی ہے لیکن عوام کورونا کے خوف اور خطرات سے ابھرے نہیں ہیں۔ وباء کے دوران نفسا نفسی کا ماحول قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ تفریحی اور تجارتی مقامات کے ساتھ عبادت گاہیں بھی سنسان کردی گئیں۔ حالانکہ مصیبت کی گھڑی میں انسان خدا کی طرف رجوع ہوتا ہے لیکن عبادت گاہوں کو مقفل کردیا گیا۔ معیشت کی تباہی کے ساتھ ساتھ اقدار کے زوال نے خونی رشتوں کو بھی پرایا اور بیگانہ بنادیا تھا ۔ خوشی کا تصور نہیں تھا لیکن خونی رشتے غم میں بھی شریک ہونے سے بھاگ رہے تھے ۔ یہاں تک دیکھا گیا کہ ماں باپ کی موت پر بچے بھی کاندھا دینے کے لئے نہیں پہنچے اور سرکاری عملہ پر تدفین کا کام چھوڑ دیا ۔

لاک ڈاؤن کے دوران کی صورتحال میدان حشر کا منظر پیش کر رہی تھی جہاں ہر شخص ایک دوسرے سے بھاگے گا۔ اخلاقی اقدار کے زوال اور رشتوں کی پامالی میں کوئی کسی کا نہیں تھا ، جسے محاورہ کے طور پر خون کا سفید ہوجانا کہا جاتا ہے ۔ معیشت کے زوال نے لاکھوں چھوٹی اور اوسط صنعتوں کو بند کردیا اور کروڑہا افراد روزگار سے محروم ہوگئے۔ صنعتی اور تجارتی اداروں کو بند کیا گیا تو دوسری طرف عصری اور دینی مدارس بھی زوال پذیر ہوگئے۔ اسکولوں کی آج تک بھی کشادگی نہیں ہوئی اور ہزاروں اساتذہ بیروزگار ہوگئے ۔ اسی طرح دینی مدارس بند ہونے کے درپہ ہیں۔ سینکڑوں چھوٹے اور اوسط دینی مدارس کا آغاز نہیں ہوسکا اور معاشی کمزور موقف مدارس کے آغاز میں اہم رکاوٹ بن چکا ہے ۔ روزگار سے محرومی اور لاک ڈاؤن میں فاقہ کشی سے عاجز آکر لاکھوں مائیگرنٹ ورکرس ہزاروں کیلو میٹر اپنی منزل کیلئے پیدل نکل پڑے۔ پیدل سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے کئی سو ورکرس نے راستہ میں دم توڑ دیا ۔ مائیگرنٹ لیبرس ، خواتین اور معصوم بچوں کے ساتھ بے یار و مددگار منزل کی طرف رواں دواں تھے ، ان کے پیروں میں چھالے پڑ گئے لیکن حکومت تماش بین بنی رہی۔ مدد کرنے کے بجائے مجبور و بے بس مزدوروں کا مذاق اڑایا گیا۔ کورونا کا شکار افراد سرکاری دواخانوں میں علاج کی کمی کے نتیجہ میں موت کی آغوش میں جاتے رہے۔ غریب اور متوسط طبقات دواخانوں میں دواؤں کو ترس کر دم توڑتے رہے تو موقع کا فائدہ اٹھاکر خانگی اور کارپوریٹ ہاسپٹلس نے لوٹ مار مچائی۔ معاشی انحطاط نے دولتمندوں کو مقروض اور غریبوں کو فاقہ کشی پر مجبور کردیا۔ کورونا وباء اور لاک ڈاؤن نے ایسے غرور اور تکبر کے کئی بتوں کو ڈھا دیا جو خود کو خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ عوام تو عوام ہیں ، حکومتیں بھی قرض اور امداد کیلئے ہاتھ میں کشکول اٹھانے پر مجبور ہوگئیں۔ نریندر مودی کو ملک کی معیشت پر ناز تھا لیکن ایک ہی جھٹکہ میں شرح ترقی منفی 23 فیصد تک گھٹ گئی۔ 45 برسوں میں پہلی مرتبہ اس قدرشدید معاشی زوال اور بیروزگاری دیکھی گئی۔ 2020 ء نے خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والے حکمرانوں کو جھکنے پر مجبور کردیا ۔ کسی بھی طبقہ کی ناراضگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملک پر اپنے فیصلے مسلط کرنے والوں کے دروازے پر کسان دستک دے رہا ہے۔ زمین کا سینہ چیر کر اناج اگانے والا کسان جب حق کیلئے اٹھ کھڑا ہو تو حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ تو آنا ہی ہے۔ کسانوں نے حکومت کی نیند اڑادی ہے ۔

پاکستان سے مقبوضہ کشمیر حاصل کرنے کا اعلان کرنے والے لداخ میں چین سے اپنی اراضی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اراضی پر ملکیت کا دعویٰ تو ہندستان کا ہے لیکن قبضہ چین کا ہے ۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ بابری مسجد کے شواہد مسلمانوں کے حق میں تھے لیکن اراضی رام مندر کے حوالے کردی گئی ۔ 56 انچ کا سینہ رکھنے والے چین سے خوفزدہ کیوں ہیں ؟ ملک میں مظلوم اور کمزوروں پر طاقت دکھانے میں بہادر سمجھنے والے لداخ میں مقابلہ کر کے اراضی واپس کیوں نہیں لیتے۔ نریندر مودی حکومت کو سرحدوں کی حفاظت سے زیادہ کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کی فکر لاحق ہے۔ انتخابات میں مدد کرنے والے امبانی ، اڈانی اور دوسروں کے فائدہ کیلئے کسانوں کے مفادات کو قربان کردیا گیا ۔ گزشتہ ایک برس میں مودی حکومت نے عوام کو درپیش مصائب و مشکلات کی پرواہ تک نہیں کی اور عام آدمی کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا۔ ایسے بے حس حکمرانوں کی موجودگی میں عوام 2021 ء میں اچھے دنوں کی توقع کس طرح کرسکتے ہیں۔ 2020 ء کے دوران کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جو متاثر نہ ہوا ہو۔ کیا امیر کیا غریب کورونا نے ہر کسی کو ایک صف میں کھڑا کردیا۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز کے مصداق مسائل بھلے ہی کم یا زیادہ رہے ہوں لیکن تمام متاثرین کی صف میں آگئے ۔ 9 ماہ گزرنے کے باوجود آج تک تجارت بحال نہیں ہوسکی اور صنعتی ادارے روایتی پیداوار کی بحالی سے قاصر ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ بھکاریوں اور گداگروں کو بھیک تک نہیں مل رہی ہے اور گداگروں کے گروہ خسارہ کا رونا رو رہے ہیں۔ 2020 ء کے دوران مسلمانوں کی بے حسی بھی عروج پر رہی ۔ کسی بھی مسئلہ پر مزاحمت کی توفیق نہیں ہوئی جس کے نتیجہ میں مودی حکومت ہندوتوا ایجنڈہ پر بلا خوف و خطر عمل پیرا ہے۔ ہر رنگ میں رنگ جانا اور موقع سے فائدہ اٹھانا کوئی مودی سے سیکھے۔ محفل کوئی ہو اپنی بات اور ایجنڈہ کی تشہیر مودی کی خصوصیت ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی صدی تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے ایک طرف یونیورسٹی کو منی انڈیا قرار دیا اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہ کرنے کی بات کہی لیکن افسوس کہ انہوں نے طلاق ثلاثہ پر پابندی کو کارنامہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے اسے جدید مسلم معاشرہ کی تعمیر میں رکاوٹ قرار دیا ۔ مودی کی تنگ نظری اور ہندوتوا ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ساری تقریر میں انہوں نے ’’مسلم یونیورسٹی‘‘ کا لفظ ادا نہیں کیا بلکہ AMU کہتے رہے۔ دوسری یونیورسٹیز کا نام ادا کرنے والے مودی کو لفظ مسلم کہنا گوارا نہیں ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ 2021 ء نہ صرف ملک بلکہ ساری انسانیت کیلئے خوشحالی ، امن ، فلاح اور ترقی کا پیام لائے گا۔ منور رانا نے نئے سال کا استقبال کچھ اس طرح کیا ہے ؎
دکھ بھی لاسکتی ہے لیکن جنوری اچھی لگی
جس طرح بچوں کو جلتی پھلجھڑی اچھی لگی