دھوکہ قدم قدم پر نیا کھارہے ہیں ہم

   

٭ ریونت ریڈی ، شرمیلا ، کشن ریڈی اور بنڈی سنجے نئے چیلنجس
٭ طویل عرصہ کے بعد پرگتی بھون کے دروازے کھل گئے
٭ چیف منسٹر کے دورے، 50 ہزار ملازمتوں کے تقررات کا اعلان

محمد نعیم وجاہت
ہر عروج کو لازمی زوال ہے اور میدان سیاست میں اگر کوئی خود کو ناقابل تسخیر تصور کرتا ہے تو اس سے بڑا احمق کوئی نہیں ہے۔ متحدہ ریاست آندھرا پردیش سے اب تک تقسیم ریاست کے بعد حکمرانوں پر چھائے ہوئے اقتدار کے نشہ کو دیکھا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہیکہ سیاست میں ہمیشہ ہمدردیاں، کارکردگی کی بنیاد پر عوامی محبت بدعنوانیوں کی وجہ سے نفرت حاصل نہیں ہوتی۔ متحدہ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو نے نکسلائٹس حملے کے بعد قبل از وقت انتخابات کروائے تاکہ اُن پر ہوئے حملے سے جو ہمدردیاں حاصل ہوئی تھیں اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ لیکن انہیں شکست ہوگئی۔ دوسری طرف ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی عوام کے درمیان پہنچتے ہوئے عوام کے دل جیت لئے اور 2004 سے قبل پدیاترا، مسلم تحفظات، برقی بقایاجات کی معافی جیسے موضوعات بنیاد بناتے ہوئے اقتدار حاصل کرلیا۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد وائی ایس آر خود کو ناقابل تسخیر تصور کرنے لگے تھے۔ کانگریس ہائی کمان کی نظر میں ایک قدآور سیاسی قائد بن کر ابھر چکے تھے، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کی موت کے بعد آندھرا پردیش میں سیاسی بحران پیدا ہوا اور عدم استحکام کی صورتحال نے تشکیل تلنگانہ کی راہ ہموار کی اور موجودہ حکمران طبقہ اسے تلنگانہ تحریک کی کامیابی تصور کرنے لگا۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کے سیاسی کیریئر کا مشاہدہ کیا جائے تو وہ ہر سیاسی جماعت کے ساتھ راست یا بالواسطہ اتحاد کرچکے ہیں۔ جس میں کانگریس۔ تلگودیشم۔ کمیونسٹ جماعتیں شامل ہیں اور وہ یو پی اے کا بھی حصہ رہ چکے ہیں اور بالواسطہ سے مراد وہ این ڈی اے حکومت کی ہر پالیسی کی تائید کرتے ہیں۔ علاقائی سطح پر ٹی آر ایس نے بائیں بازو جماعتوں، مجلس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے راست و بالواسطہ تعلقات کو بہتر رکھتے ہوئے سیاسی زندگی گذار رہے ہیں۔ اب ریاست میں سابق ریاستی وزیر ایٹالہ راجندر کی بغاوت کے بعد تلنگانہ میں انتخابات سے قبل اچانک سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ کانگریس پارٹی نے نوجوان حرکیاتی قائد اے ریونت ریڈی کو تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی کا صدر نامزد کردیا۔ دوسری طرف بی جے پی قیادت نے جی کشن ریڈی کو وزارت میں ترقی دیتے ہوئے انہیں کابینی وزیر بنا دیا۔ تیسری طرف شرمیلا نے نئی سیاسی پارٹی تشکیل دے دی ہے۔ بنڈی سنجے ایک سال سے حکومت کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اس طرح چیف منسٹر اور ٹی آر ایس پارٹی کے لئے ایک ساتھ کئی چیلنجس ابھر کر آگئے ہیں۔
چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر کے لئے 2018 کے قبل از وقت انتخابات کرانے کا فیصلہ اب ان کے لئے بہت بڑا چیلنج بن کر ابھر چکا ہے کیونکہ 2018 میں اے ریونت ریڈی، جی کشن ریڈی اور بنڈی سنجے جیسے قائدین کو ایک منظم سازش کے تحت ٹی آر ایس اسمبلی میں پہنچنے سے روکنے میں یقینا کامیاب ہوگئی۔ مگر 2019 میں ان تینوں کو پارلیمنٹ پہنچنے سے روکنے میں ٹی آر ایس ناکام ہوگئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شعلہ بیان مقرر اے ریونت ریڈی تلنگانہ میں کانگریس کا چہرہ بن گئے اور انہوںنے تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی کی صدارت کا خود کو اہل ثابت کردیا۔ اس طرح حلقہ اسمبلی عنبر پیٹ کی طویل عرصہ تک نمائندگی کرنے والے جی کشن ریڈی نے مرکزی کابینہ میں مقام حاصل کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ وہ کے سی آر کے لئے ایک چیلنج ہے۔ ان دونوں ریڈی قائدین کے علاوہ بی سی طبقہ سے تعلق رکھنے والے بنڈی سنجے کو تلنگانہ بی جے پی کا صدر بنانے کے بعد انہوںنے بی سی طبقہ کو بی جے پی کے قریب لانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی سابق وزیر ایٹالہ راجندر کی بی جے پی میں شمولیت ہے ۔ ساتھ ہی جی ایچ ایم سی اور دوباک ضمنی انتخابات میں بی جے پی طاقت کا زبردست مظاہرہ کرچکی ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے حالیہ سیاسی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے بعد انہی سیاسی چالبازی کا ثبوت دینے کے لئے تلنگانہ تلگودیشم پارٹی کے صدر ایل رمنا کو ٹی آر ایس میں شامل کرنے راہ ہموار کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ وہ چیلنجس کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے۔ سنا یہ بھی جارہا ہیکہ چیف منسٹر کے سی آر ۔ کانگریس بی جے پی کے علاوہ نو تشکیل شدہ وائی ایس آر تلنگانہ پارٹی کو کنارے کرنے کے لئے اپنے فرزند ریاستی وزیر اور ٹی آر ایس کے ورکنگ پرسیڈنٹ کے ٹی آر کو ریاست کے معاملت میں نمایاں مقام دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا ماننا ہیکہ آئندہ کے ٹی آر کی نگرانی میں انتخابات کروائے جانے کا قوی امکان ہے کیونکہ ٹی آر ایس کو توقع کے مطابق شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کے ٹی آر کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ کے سی آر اس شکست کی ذمہ داری سے بچایا جاسکے۔ ملک کی سیاست میں طویل مدت سے چانکیہ کا نام لیا جارہا ہے۔ این ڈی اے کے دور حکومت میں چندرا بابو نائیڈو کو چانکیہ تھے اور اب امیت شاہ چانکیہ کو کہا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ٹی آر ایس کے حلقوں میں کے سی آر کو چانکیہ کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ تلنگانہ کی سیاست میں انتخابات سے ڈیڑھ سال قبل ہی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ تلنگانہ بی جے پی کے صدر بنڈی سنجے نے آئندہ ماہ 9 اگست سے پدیاترا شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نئی سیاسی پارٹی تشکیل دینے والی شرمیلا نے 100 دن بعد ریاست میں پدیاترا شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ اپنے بھائی جگن موہن ریڈی کے جیل میں رہنے کے دوران متحدہ آندھرا پردیش میں 3 ہزار کیلو میٹر پدیاترا کرچکی ہیں اور اب دوبارہ تلنگانہ میں پدیاترا کرنے کا اعلان کرچکی ہیں۔ تلنگانہ پردیش کانگریس کی صدارت حاصل ہوتے ہی اے ریونت ریڈی نے عالم پور سے عادل آباد تک پدیاترا کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ نو منتخب تلنگانہ کانگریس عاملہ کے اجلاس میں پد یاترا کا جائزہ لینے کے بعد پارلیمنٹ اجلاس کے بعد اس پر قطعی فیصلہ کرنے سے اتفاق کیا گیا۔ ریاست میں حالیہ سیاسی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے چیف منسٹر نے پرگتی بھون کے دروازے کھول دیئے اور وہ خود بھی اب ریاست کے دورے کررہے ہیں۔ عوام میں حکومت کے خلاف پائی جانے والی ناراضگی کو دور کرنے کے لئے مختلف اعلانات جیسے50 ہزار ملازمتوں کی فراہمی،نئے راشن کارڈس کی اجرائی، 57 سال عمر کے لوگوں کو وظیفہ دینے کے بعد دوسرے اعلان کررہے ہیں۔ انہوں نے مختلف پروگرامس کے ذریعہ وزرا اور پارٹی قائدین کو مصروف کردیا ہے۔