دہشت گردی کا الزام رشتہ داروں سے بھی رشتہ توڑ دیتا ہے

,

   

“Framed as Terrorist”

چودہ سالوں تک قید وبند کی زندگی گذارنے والے محمد عامر کی کہانی

حیدرآباد۔ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے‘ آزادی سے قبل ملک کی تقسیم کاسانحہ پیش آیا‘ مگر مسلمانوں نے دوقومی نظریہ کو ٹھوکر ماردی اور جناح کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے ہندوستان کو تسلیم کیا‘ مسلمانوں موقع سے نہیں بلکہ خواہش سے ہندوستانی شہری بنیں ہیں مگر ستر سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی مسلمانوں سے ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

سکیولرزم کے علمبردار مہاتماگاندھی کے قاتل کا مندر بنایاجاتا ہے اور اس کی پوجا کی جاتی ہے اور مسلمانوں سے ان کی حب الوطنی کے ثبوت کااستفسار کیاجاتا ہے‘

ہم ایسے دور کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں پر دوقومی نظریہ نہ صرف فروغ پارہا ہے جس سے آنے والی نسلوں کے لئے مشکل دور ہوگا او ردنیاکی عظیم جمہوریت عراق‘ سیریا‘ اور افغانستان کے طرز پر خانگی جنگی کے ماحول کاشکار ہوجائے گی‘

سیول سوسائٹی‘سماجی جہدکاروں‘ انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے جدوجہد کرنے والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کو اس سنگین بحران سے نکالنے کے لئے سرگرم عمل ہوجائیں۔جمعہ کی شب’  مصنف  محمد عامر نے منتھن میں اپنی کتاب پر تبصرے کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا۔

دہشت گردی کے فرضی مقدمات میں چودہ سال جیل کی سزا کاٹنے کے بعد باعزت بری ہونے والے نئی دہلی کے ساکن محمد عامر نے کہاکہ دہشت گردی کے الزامات میں گرفتاری کے بعد اپنے معاشرہ سے رابطہ پوری طرح ختم ہوجاتا ہے۔

اپنے گھر والوں کے ساتھ پیش ائے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے محمد عامر نے کہاکہ رشتہ دار‘ دوست احباب او ریہاں تک کے پڑوسی بھی میرے گھر والوں سے ملاقات کرنے کے لئے ڈرتے تھے۔ انہوں نے مزید کہاکہ چودہ سال جیل کی صعوبتیں جھلیں ہیں اور اس دوران سوائے والد او روالدہ کے جیل کو ملاقات کے لئے آنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔

عامر نے کہاکہ اگر معاشرے کی طرف سے اس طرح کارویہ ظالم پولیس انتظامیہ کے حوصلوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے اور میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔

عامر نے کہاکہ قید کے دوران میرے والد کاانتقال ہوگیا‘ والدہ گھر میں تنہا تھیں وہ ساری قانونی چارہ جوئی کرتے رہیں‘ مگر ان کے بھی حوصلے پست ہوگئے اور میری رہائی میں تاخیر سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئیں کہ انہیں فالج کااثر ہوگیا۔

چودہ سال جیل کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد جب میری رہائی عمل میں ائی تو میں والد ہ کی حیات تک ان کے منھ سے میرے لئے لفظ بیٹا سننے کے لئے ترس گیا۔ محمد عامر نے مزیدکہاکہ ڈاٹا او رپوٹا جیسے قوانین کا استحصال کوئی نئی بات نہیں ہے۔

اپنے خطا ب کے دوران محمد عامر نے پنجاب کا حوالہ دیا او ر کہاکہ 1985کے بعد پنجاب میں سکھوں کے خلاف اس طرح کے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے انہیں فرضی مقدمات میں ماخوذ کیاگیا اور دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں۔

عامر نے کہاکہ فرضی مقدمات میں ماخوذ کئے جانے کے بعد باعزت بری ہونے کا وجہہ غیرجانبدرانہ نظام عدلیہ ہے۔

انہو ں نے پولیس کے ساتھ اگر عدالتیں بھی جانبداری یا ایک قومی نظریہ کے مطابق کام کرنے لگیں تو اس ملک میں مصائب زدہ‘ پریشان حال اور غریب طبقات کی آواز سننے والا کوئی ادارہ باقی نہیں رہے گا اور ملک یقینی طور پر تباہی کی طرف چلا جائے گا۔

عامر نے کہاکہ چودہ سال جیل میں کاٹنے کے باوجود عدلیہ پر یقین تھا کہ انصاف ہوگا اور ایک دن انصاف ہوا۔محمد عامر جو پولیس ڈائری او رسوشیل میڈیا پر عامر خان کے نام سے بھی مشہور ہیں نے جیل کے اندر بھی تیزی کے ساتھ پھیل رہے فرقہ پرستی کے زہر تشویش ظاہر کی اورکہاکہ دہشت گردی کے معاملات میں جیل بھیجے گئے افراد کے ساتھ جیل میں بھی بدسلوکی عام بات ہے۔

YouTube video

انہوں نے مزیدکہاکہ بھلے ہی وہ فرضی مقدمات میں ماخوذ کیاگیاہو مگر ایک منظم ذہنیت کے ساتھ اس کے ساتھ بدسلوکی جیلوں میں کی جاتی ہے۔

دوران قید پیش ائے ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے عامر نے کہاکہ قید کے دوران کا واسطہ ایک ایسے جیلر سے پڑھا جو نہایت جابر اور ظالم تھا اور خود کو بڑا محب وطن پیش کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں رکھتا۔

انہوں نے بتایاکہ ”جب اس کو پتہ چلا کہ دہشت گردی کے کیس میں مجھے ماخوذ کرتے ہوئے قید میں رکھا گیاتو اس نے نہ صرف میرے ساتھ بدسلوکی کی بلکہ مارپیٹ کے بعد مجھے ایک ایسے قیدخانہ میں بند کردیا جہاں پر روشنی کا آنا بھی محال تھا۔

پانچ ماہ تک میں اس قید میں رہا او راسی دوران ماہ صیام بھی آگیا۔ میں دوقت فراہم کئے جانے والے کھانے کو بچا کر رکھتا اور سحر کے ساتھ افطار کے لئے میں اس کااستعمال کرتا تھا۔جیل کی سخت تاکید تھی کوئی ساتھی قید نہ تو میری مدد کرے اور نہ ہی مجھ سے ملاقات کرے۔

مگر کہتے ہیں انسانیت کاکوئی مذہب نہیں ہوتا۔ہر روز دو لوگ میرے بیرک کے باہر سے ایک پیاکٹ پھینکتے او رچلاجاتے تھے‘

حالانکہ اس کا چہرہ ڈھنکا ہوا رہتا مگر اس کو پہچانے میں میرے سے کوئی غلطی نہیں ہوئی اور یہ سلسلہ پورے رمضان چلتا رہا۔ ان پیاکٹ میں دودھ اورکھجو رہتے تھے۔

جب میں اس اندھیرے قید خانہ سے باہر آیااور اس شخص سے ملاقات تو مجھے اس کانام معلوم ہوا کہ وہ کرن اور ہرپریت سنگھ تھے۔

حالانکہ میرے ساتھی قیدیوں میں مسلمان بھی تھے مگر ان کی ہمت نہیں ہوئی او ریہ غیرمسلم ہونے کے باوجود میرے روزے کے خیال اپنے دل میں رکھ کر میری مدد کی تھی“۔

انہوں نے کہاکہ انسانیت آج بھی کچھ لوگوں کے دلوں میں قائم ہے‘ مذہب‘ ذات پات سے بالاتر ہوکر وہ انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔

عامر نے اسی دوران قومی انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام اور تین سال کی مسلسل نمائندگی کے بعد دہلی پولیس کی جانب سے انہیں پیش کئے گئے پانچ لاکھ روپئے کے معاوضہ کا بھی یہا ں پر ذکر کیا

او رکہاکہ قومی اقلیتی کمیشن نے ذاتی طور پر دہلی پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہاتھا کہ”اگر عامر خان کو عدالت نے بے قصور قراردیتے ہوئے رہا کردیا ہے تو کیایہ ضروری نہیں ہے کہ دہلی پولیس ان کے چودہ سال کی تباہی پر پانچ لاکھ روپئے معاوضہ ادا کرے“۔

اور دہلی پولیس کو یہ معاوضہ ادا کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ اللہ کی ذات او ر ملک کے قانون پر بھروسہ کرنے کے سبب تاخیر سے ہی سہی مگر انصاف ملا۔انہوں نے کہاکہ موجودہ دور میں انسانیت کو ختم کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں‘

یواے پی اے اور این ایس اے میں ترمیم لائی گئی ہے تاکہ کسی کو بھی کہیں سے کبھی بھی گرفتار کرلیں او ر اس کو اذیتیں پہنچائیں تاکہ وہ حکمرانوں کی ناکامیوں کے خلاف اپنی زبان کھولنے سے ڈرے۔

عامر نے کہاکہ میرا سب سے بڑاخوف ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کے متعلق ہے۔ کیا وہ کہہ پائیں گے ہم نے ہندوستان کا انتخاب اپنی مرضی سے کیا ہے‘

حالانکہ ہمارے پاس ایک اور موقع تھا مگر اس کو ٹھکرا ہم نے مہاتما گاندھی کے سکیولر ہندوستان کو اپنا مادر وطن بنانے کا فیصلہ کیاہے۔ کیاہماری آنے والی نسلیں بے خوف زندگی اس ملک میں گذار سکیں گے۔

کیاہماری آنے والی نسلیں مہاتما گاندھی‘ پنڈت نہرو‘ باباصاحب امبیڈ کر اور ابولکلام آزاد کے اس ہندوستان کا حصہ رہیں گے‘ جس میں ائین کے ذریعہ ہر ہندوستانی کو مساوی انصاف کا یقین دلایاگیا ہے یا پھر ہمارے نسلیں مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی پوجا کرنے والوں کی سازشوں کا شکار ہوجائیں گے۔

عامر نے ان خدشات کو دور کرنے کے لئے معاشرے میں سب سے پہلے قانونی حالت او رعدالتی نظام سے واقفیت کو لازمی قراردیا اورکہاکہ عدالتو ں کی غیرجانبداری اور سیول سوسائٹی کی حساسیت ہندوستا ن کو کبھی گوڈ سے کی منادر کا مرکز بننے نہیں دے گا۔

عامر نے اپنے خطاب کے آخر میں کہاکہ پولیس انتظامیہ کی جوابدہی ضروری ہے۔

جب تک فرضی مقدمات میں نوجوانوں کو ماخوذ کرنے کے بعد ان کی باعزت رہائی پر پولیس کو جوابدہ نہیں بنایاجاتا تب تک اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہے۔

سید اسماعیل ذبیح اللہ
zabiindian@gmail.com