دہلی حکومت و لیفٹننٹ گورنر کا ٹکراؤ

   

ملک میں منتخبہ عوامی حکومتوں کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ عوام کے ووٹ کے ذریعہ منتخب ہونے والی حکومتوں کی دستوری اور قانونی اہمیت ہے ۔ یہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے کے بعد عوام کیلئے کام کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔ ریاستوں میں منتخب ہونے والی حکومتوں کا اپنا دائرہ کار ہوتا ہے تو مرکزی حکومت کا اپنا الگ دائرہ کار ہوتا ہے ۔ وفاقی طرز حکمرانی ہندوستان میں رائج ہے جس میں ریاستی اور مرکزی حکومتیں اپنے اپنے دائرہ میں کام کرتی ہیں۔ مرکز کی جانب سے ریاستوں میں سربراہ حکومت کی حیثیت سے گورنرس اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں لیفٹننٹ گورنرس کا تقرر عمل میں آتا ہے ۔ لیفٹننٹ گورنرس ہوںیا گورنرس ہوں یہ بھی دستوری عہدے ہوتے ہیں اور یہ لوگ عوامی منتخب حکومت کے مشورہ اور اس کی سفارش کو قبول کرتے ہوئے سرکاری کام کاج کو آگے بڑھاتے ہیں۔ تاہم حالیہ عرصہ میں اس روایت میں رخنہ اندازیاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ گورنرس ریاستی حکومتوںکے کام کاج میں اور لیفٹننٹ گورنرس مرکزی زیر انتظام علاقوں کے کام کاج میں مداخلت کرتے ہوئے اپنے عہدوں کے وقار کو پامال کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ریاستی حکومتیں ہوں یا مرکزی زیر انتظام علاقوں کی حکومتیں ہوں وہ بھی اس روش کی وجہ سے گورنرس کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ صورتحال ملک کے دستوری ڈھانچہ کو متاثر کرنے والی کہی جاسکتی ہے اور اس کیلئے سبھی کو غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس صورتحال کا ازالہ کرتے ہوئے ملک میں دستوری اور قانونی گنجائشوں کی تکمیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح کچھ ریاستوں میں گورنرس اور ریاستی حکومتوں کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اسی طرح دارالحکومت دہلی میں بھی یہ صورتحال زیادہ ہی طوالت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ حکومت دہلی کا الزام ہے کہ لیفٹننٹ گورنر اپنے حدود سے تجاویز کرتے ہوئے منتخبہ عوامی حکومت کے کام کاج میں رخنہ اندازی کر رہے ہیں۔ دوسری جانب لیفٹننٹ گورنر راپنے اقدامات کا جواز پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ غرض یہ کہ دونوں ہی فریق ایک دوسرے کو ذمہ دارقرار دے رہے ہیں۔
دارالحکومت دہلی میںعام آدمی پارٹی کو عوام کے ووٹ سے اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ اسمبلی میں ہوں یا پھر دہلی میونسپل کارپوریشن میں ہوعام آدمی پارٹی عوام کے ووٹوںکے ذریعہ اکثریت حاصل کرنے میںکامیاب ہوئی ہے ۔عوام کے ووٹ کی جمہوریت میںانتہائی اہمیت ہے ۔ اس طرح سے منتخب ہونے والی حکومت کے کام کاج میںمداخلت کرنا یا پھر رخنہ اندازی پیدا کرنا غیر درست کہا جاسکتا ہے ۔ گورنر ہوں یا لیفٹننٹ گور نر ہوںانہیں اپنے عہدہ کے وقار کا خیال کرتے ہوئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومتوں کے کام کاج میں مداخلت کرنا در اصل عوام کو سہولیات اور عوام کی بہتری کیلئے شروع کی جانے والی اسکیمات کو روکنے کی کوشش کے مترادف ہے اور یہ عمل کسی بھی صورتحال میںدرست نہیں کہا جاسکتا ۔ لیفٹننٹ گورنر کی اپنی دستوری و قانونی حیثیت مسلمہ ہے تو منتخبہ عوامی حکومت کے وقار اور اس کی اہمیت سے بھی کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس صورتحال میں دہلی کی حکومت کو یا پھر لیفٹننٹ گورنر ہوںدونوںہی کو دستوری اور قانونی گنجائشوںکا احترام کرنا چاہئے ۔عوامی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے اختلافات کو دور کرنا چاہئے ۔ ہر ایک کو اپنے اپنے دائرہ میںرہتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی کو کسی کے کام میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ دونوں ہی فریقین کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے ۔ اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے دوسرے کیلئے مشکلات پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ کسی کے عہدہ یا کسی کے وقار و احترام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاناچاہئے اور نہ ہی اپنی حد سے تجاوز کرنا چاہئے ۔
مرکزکے تقرر کردہ گورنرس اور لیفٹننٹ گورنرس کو ریاستی یا مرکزی زیر انتظام علاقہ کی حکومت کو اپنی مد مقابل یا حریف سمجھنے کی بجائے اسی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرنا چاہئے ۔ ریاستی حکومت کو مشورے دئے جاسکتے ہیں۔ اس کی رہنمائی کی جاسکتی ہے لیکن اس کے کام کاج میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ حکومتیں ہوں یا گورنرس ہوں سبھی کو اپنے اپنے دائرہ تک محدود ہونا چاہئے ۔ مرکزی حکومت کو بھی اس صورتحال میںمداخلت کرتے ہوئے صورتحال کی بہتر انداز میںیکسوئی کرنی چاہئے ۔ اس معاملہ میں سیاست کا کوئی دخل نہیںہونا چاہئے ۔سیاست مسائل کو حل کرنے کی بجائے الجھانے کا سبب نتی ہے ۔