دہلی فسادات اور پولیس کے سرپرست

   

ہندوستان کی پولیس اور قانون اتنا کمزور ہے کہ اس کو کوئی بھی طاقتور سیاسی گروپ اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ دہلی فسادات کی تحقیقات کے بعد پولیس نے جو چارج شیٹ داخل کی ہے اس سے یہی واضح ہوتا ہیکہ دہلی پولیس اور قانون پر ایک سیاسی طاقت حاوی ہوچکی ہے۔ ایک ٹولے کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے تو دوسرے گروپس کو فسادات کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ قانون کمزور کیا بلکہ اس قانون کو ان سیاستدانوں کیلئے جوتی کا کام کرنے کیلئے لگادیا گیا ہے۔ دہلی فسادات کے لئے صرف مخالف سی اے اے اور این آر سی کارکنوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جبکہ سی اے اے کے حامیوں کا کوئی ذکر نہیں ہے جن کی اشتعال انگیزیوں سے فسادات کو ہوا ملی تھی۔ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کے سامنے بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے اشتعال انگیز بیان دیا تھا۔ یہ سب اتنے ماسٹر اور فرقہ پرست مجرمین دہلی پولیس کی چارج شیٹ سے غائب ہیں۔ مرتکب طاقتور ہو تو ہمیشہ بری ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے سرپرست بہت اونچے منصب پر موجود ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اول تو پولیس تو کیاں قانون کی طاقتور ہستی بھی انہیں روکتی نہیں چاہے آنکھوں سے قتل ہوتا دیکھ لے۔ فسادات بھڑکانے میں اس کا اہم رول کیوں نہ ہو بدقسمتی سے صرف مسلمان ہی ہر دو خائف سے نشانہ بن جاتے ہیں۔ یہ مسلمان ہی ہیں جو فسادات میں فرقہ پرستوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنی جان و مال لٹانے کے بعد بھی پولیس کی ناانصافی کا شکار ہوتے ہیں۔ دہلی فسادات پر پولیس کی رپورٹ اور چارج شیٹ سے یہی سب کچھ ثابت ہوتا ہیکہ دہلی پولیس نے اپنا فرض ایمانداری سے پورا نہیں کیا ہے۔ پولیس کی جانبداری کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں نے صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند سے نمائندگی کرتے ہوئے دہلی فسادات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ فروری میں ہوئے فسادات کی تحقیقات پر تنقید کرتے ہوئے اسے حقائق سے بعید کہا گیا ہے۔

پولیس کی جانبداری کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ پولیس نے اپنی رپورٹ میں ان ناموں کو شامل کیا ہے جو مرکزی حکومت کے قوانین اور پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔ طلباء تنظیموں کے قائدین کے نام شامل کرلئے گئے ہیں ان کے ساتھ سی پی آئی ایم جنرل سکریٹری سیتارام یچوری، سوراج ابھیان کے یوگیندر یادو، اکنامسٹ جیتی گھوش، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپروآنند اور ڈاکیومنٹری فلم ساز راہول رائے کا بھی نام شامل کیا گیا ہے۔ پولیس کے ضمنی چارج شیٹ میں ان قائدین اور کارکنوں کے نام شامل کرنے کے پیچھے پولیس کا یہی مقصد ہوسکتا ہے کہ ان کی آواز کو دبایا جائے۔ پولیس نے اپنی جانبدارانہ تحقیقات کے ذریعہ خود کو بے نقاب کرلیا ہے۔ دہلی فسادات کی تحقیقات کے حوالہ سے پولیس نے اپنی تحقیقات کا رخ اور کارروائی کا نشانہ صرف اور صرف مخالف سی اے اے احتجاجیوں کی طرف لگایا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں اور سماجی کارکنوں نے سرکاری طاقت کے غلط استعمال کا ایک واضح ثبوت ہے۔ دہلی فسادات کروانے سے لیکر اس کی تحقیقات کی شروعات سے ہی پولیس کی توجہ ان فسادات کیلئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور سی اے اے کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کو ماخوذ کیا جائے۔ پولیس کی حرکت کو انصاف کے قتل کے مترادف قرار دیا جارہا ہے۔ فسادات میں 53 افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی ہوئے اور مسلمانوں کی املاک تباہ ہوگئیں۔ ان مجرموں کا سرپرست کون ہے؟ فسادات کا ذمہ دار کون ہے۔ اس کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کروائی جانی چاہئے۔ عدالتی جانچ کے ذریعہ پولیس کی جانبداری کو بے نقاب کیا جاسکتا ہے۔ عوام کا مددگار کون ہے۔ یہ غور کرنا قانون کے رکھوالوں کی ذمہ داری ہے لیکن قانون اور اس کے رکھوالے سیاسی آقاؤں کی کٹھ پتلی بن جائیں تو پھر تحقیقات اور انصاف کے حصول کی توقع ختم ہوجاتی ہے۔ موجودہ حکمرانی کا نظام بری طرح ناکام ہے۔ حکمرانی کی نیت تعصب پسندی سے آلودہ ہے۔ اس لئے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اپوزیشن نے ان زیادتیوں کے خلاف دستوری عہدہ کی حامل اعلیٰ شخصیت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی نمائندگی کا نتیجہ مثبت اور انصاف رسانی کی راہوں کو کشادہ کرتا ہے تو یہ ایک اچھی اور دستوری ذمہ داری کو بروئے کار لانے کی جانب قدم ہوگا۔

پرائیویٹ ریلویز اور کرایہ
ملک کے غریب ریلوے مسافروں پر دن بہ دن مالیاتی بوجھ ڈالنے کا بندوبست کرنے والی مرکز کی مودی حکومت نے ریلوے کو خانگیانے کا جزوی عمل شروع کردیا ہے۔ حکومت نے واضح کیا کہ پرائیویٹ ریلویز کو ان کے اپنے کرایہ مقرر کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ غریب مسافروں پر ایک ایسی ضرب ہے جس کا درد دیر تک محسوس کیا جائے گا اور حکومت کی خانگیانے کی پالیسیاں اس ملک کے عوام کو دن بہ دن پریشان کن بن جائیں گی۔ ریلویز میں یہ سرمایہ کاروں کو الجھانے کیلئے وزیراعظم نریندر مودی کے نظم و نسق نے ریلوے نٹ ورک کو خانگی فرمس کے لئے کھول دیا ہے اور ان خانگی اداروں کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کرایہ وصول کریں۔ ریلوے کے کرایہ ہمیشہ سے ہی ہندوستان میں سیاسی طور پر حساس نوعیت کا معاملہ رہا ہے۔ ہندوستانی ریل سرویس سے روزانہ کروڑہا لوگ سفر کرتے ہیں۔ عوام کی بڑی تعداد کے سفر کا انحصار یہ ریلوے نٹ ورک ہی ہے لیکن اس نٹ ورک کو حالیہ برسوں میں طرح طرح تباہ کردیا گیا ہے۔ لاپرواہی اور غیرکارکرد بیوریوکریسی نے ریلوے کے بہترین نظام کو ہی ناکارہ کردیا۔ ماضی میں ہندوستان کا ریلوے نظام اپنی کارکردگی کے لئے نیک نام رکھتا تھا۔ اب مودی حکومت کے آنے کے بعد ریلویز کو پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کرنے کی نیت سے بری طرح نظرانداز کردیا گیا۔ یہ خانگی ادارے سرمایہ کاری کے ذریعہ سرکاری ملکیت کی ریلوے پر اپنا راج اور اپنی من مانی کریں گے۔ اسٹیشنوں کو عصری بنانے سے لیکر ٹرینوں کو چلانے تک پرائیویٹ فرمس کے حوالے کیا جارہا ہے۔ میک ان انڈیا کے حوالے سے انڈین ریلویز نے عالمی سطح کے پرائیویٹ پاسنجر ٹرینوں کے ساتھ 4 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر نظر رکھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہیکہ خانگیانے کا یہ عمل ریل مسافروں کی جیب پر کتنا بوجھ ڈالتا ہے۔