دیش کی تباہی کا حساب دیجئے

,

   

اگنی پتھ اسکیم … فوج سے مذاق … نوجوان برہم
احتجاج پر حکومتوں کا دہرا معیار … کیا یہاں بھی بلڈوزر چلے گا؟

رشیدالدین
ملک کی کئی ریاستیں آرمی تقررات کی نئی اسکیم کے خلاف احتجاج کے سبب آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ سرکاری املاک حتیٰ کہ ریلوے کوچیس اور ریلوے اسٹیشنوں کو آگ کی نذر کردیا گیا۔ پولیس احتجاجیوں پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ وائرل ویڈیوز میں پولیس کو جان بچانے کیلئے راہ فرار اختیار کرتے دیکھا گیا ۔ بہار سے یہ احتجاج شروع ہوا جو اترپردیش ، راجستھان ، ہریانہ ، دہلی ، تلنگانہ اور مغربی بنگال تک پھیل چکا ہے۔ یہ محض اتفاق ہی ہے کہ بی جے پی میر اقتدار ریاستیں احتجاج سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے مسلح افواج میں تقررات سے متعلق اگنی پتھ اسکیم کے خلاف نوجوانوں کا غصہ بھڑک اٹھا۔ طلبہ اور نوجوانوں کی یہ برہمی ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی پھیل سکتی ہے۔ فوج کے تینوں شعبوں میں تقررات کے لئے مرکزی حکومت نے اسکیم کا نام ’’اگنی پتھ‘‘ رکھا ہے۔ اسکیم کے نام میں ہی آگ شامل ہے اور توقع کے عین مطابق اسکیم کے خلاف آگ بھڑک اٹھی ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسکیم کا نام طئے کر نے والوں کو یہ پتہ تھا کہ طلبہ اور نوجوان بھڑک اٹھیں گے اور اسی لئے اسکیم کا نام آگ سے منسوب کیا گیا ۔ مرکز کی پالیسی کے خلاف یہ احتجاج مسلمانوں کی جانب سے گستاخانہ رسولؐ کے خلاف مظاہروں کے محض پانچ دن بعد ہوا اور متاثرہ ریاستوں میں اترپردیش نمایاں ہے۔ رکروٹمنٹ پالیسی کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے قانون کی خلاف ورزی کی تمام حدود کو پار کرلیا لیکن سوائے حیدرآباد کے کسی بھی مقام پر فائرنگ تو کیا ربر کی گولی ، آنسو گیس اور لاٹھی چارج تک نہیں ہوا۔ قانون کے محافظ پولیس عہدیدار امن و ضبط کو بحال کرنے اور سرکاری املاک کو تباہی سے بچانے کے بجائے اکثر مقامات پر تماش بین بنے رہے۔ دیگر مقامات پر پولیس عہدیدار سنگباری میں زخمی ہونے کے باوجود خاموش رہے۔ چند دن قبل مسلمانوں نے جھارکھنڈ کے رانچی میں گستاخ رسالت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا تو دو نوجوانوں کو گولی ماردی گئی ۔ اتنا ہی نہیں بیدردی سے لاٹھی چارج کے بعد پولیس اسٹیشنوں میں محروس نوجوانوں کی پٹائی کے ویڈیوز وائرل ہوئے جسے دیکھ کر سیول سوسائٹی تڑپ اٹھی اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو مذمت کرنی پڑی۔ یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے احتجاجیوں کی املاک اور مکانات پر بلڈوزر چلا دیا۔ مسلمانوں کا بس قصور یہ تھا کہ انہوں نے گستاخوں کے خلاف کارروائی کی مانگ کی جن کا تعلق بی جے پی سے رہا ہے ۔ سنگھ پریوار کے نزدیک مسلمانوں کو دستوری حق کے تحت پرامن احتجاج کی بھی اجازت نہیں ہے۔ رکروٹمنٹ پالیسی کے خلاف پرتشدد احتجاج کرنے والے نوجوان چونکہ مسلمان نہیں تھے، لہذا ان پر لاٹھی تک نہیں چلی۔ یوگی ادتیہ ناتھ کا بلڈوزر احتجاجیوں کی املاک پر چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ احتجاج چاہے کوئی کرے ، نمٹنے کے اصول اور طریقے یکساں ہونے چاہئے ۔ اپنوں کے ساتھ نرمی اور مسلمانوں پر لاٹھی ، گولی اور بلڈوزر کہاں کا انصاف ہے۔ احتجاج سے نمٹنے کیلئے پولیس کے مروجہ مینول کے تحت لاٹھی چارج ، آنسو گیس ، پانی ، ہوائی فائرنگ ، ربر گولیوں کے استعمال کے بعد فائرنگ کا نمبر آتا ہے اور وہ بھی پیروں کے نچلے حصہ میں کی جائے لیکن ملک میں پولیس نے مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی تو سینے اور سر میں گولیاں پیوست کردیں۔ احتجاج سے نمٹنے کے طریقہ کار کا تقابل کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ آرمی رکروٹمنٹ کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کا مطالبہ کیا جائے۔ ہم صرف بتانا یہ چاہتے ہیں کہ پولیس اور سیول نظم و نسق میں مسلم دشمنی اور نفرت کا زہر کچھ اس طرح گھول دیا گیا ہے کہ مسلمان کے خلاف دیکھتے ہی بندوقیں تان لی جاتی ہیں ، جیسے کہ مسلمان ہندوستان کے شہری نہیں بلکہ ملک کے دشمن ہوں۔ نفرت کا زہر پھیلانے والے خود اقتدار کی کرسی پر فائز ہوجائیں تو یہی سلوک ہوگا جو اترپردیش اور جھارکھنڈ میں ہوا۔دونوں حکومتوں کی کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ ، ہائی کورٹس کے ریٹائرڈ چیف جسٹس ، ججس اور ماہرین قانون نے آواز اٹھائی اور چیف جسٹس سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل کی۔ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججس کے رویہ پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ججس اپنے طور پر کارروائی اور مدا خلت سے گریزاں ہیں۔ عدلیہ پر دباؤ کا نتیجہ ہے یا پھر کچھ اور ہے ۔ دہلی اور ریاستوں میں انسانی حقوق کمیشن موجود ہیں لیکن کسی نے مظالم کا نوٹ تک نہیں لیا۔ کیا انسانی حقوق کمیشنوں کو پولیس کی بربریت دکھائی نہیں دے رہی ہے یا پھر وہ مسلمانوں کے حق میں مداخلت کی جرأت نہیں کرسکتے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ قومی اقلیتی کمیشن بھی ان واقعات پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ جس کمیشن کا وجود ہی اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے، اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی یا پھر کمیشن نے خود انکھ اور کان بند کرلئے ہیں۔ اترپردیش کی سہارنپور پولیس کی جانب سے مسلم نوجوانوں کے لاک اپ میں مارپیٹ کا ویڈیو وائرل ہوا تو وہاں کے پولیس سربراہ نے ویڈیو سے انکار کردیا اور کہا کہ سہارنپور میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مرکز میں بی جے پی اقتدار کے بعد سے عدلیہ بھی دباؤ کا شکار ہوچکی ہے۔ حکومت کے حق میں متواتر فیصلے آرہے ہیں اور حکمرانوں پر عدلیہ کا خوف ختم ہوچکا ہے ۔ حکومت کے حق میں فیصلوں کا انعام ریٹائرمنٹ کے بعد کسی اہم عہدہ کی شکل میں دیا جارہا ہے۔
جب کسی کا زوال قریب آتا ہے تو وہ عقل سے محروم ہوجاتا ہے ۔ کچھ یہی حال مرکز کی نریندر مودی حکومت کا ہے ۔ مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار کے حصول کے بعد بی جے پی قائدین عقل سلیم سے محروم ہوچکے ہیں اور وہ غرور و تکبر کا مجسمہ بن چکے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ چاہے کچھ کرلو عوام انہیں دوبارہ ووٹ دیں گے ۔ عوام کا حافظہ عام طور پر کمزور ہوتا ہے لیکن مسلسل ناانصافیاں ہوں تو کسی نہ کسی ایک مسئلہ پر سارا غصہ ٹوٹ پڑتا ہے۔ کچھ یہی حال آرمی رکروٹمنٹ کی نئی پالیسی اگنی پتھ کے بارے میں ہوا۔ نوٹ بندی سے لیکر آج تک مودی حکومت نے عوام کو اچھے دن کے نام پر برے دن تحفہ میں دیئے ۔ بیروزگاری میں دن بہ دن اضافہ ہوا۔ اب جبکہ فوج کے تینوں شعبہ جات میں صرف چار سال کے لئے تقررات کی پالیسی تیار کی گئی تو نوجوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ مبصرین کے مطابق مسلسل ناانصافیوں اور مایوسی نے نوجوانوں کو پرتشدد احتجاج پر مجبور کردیا۔ کسانوں کے بعد مودی حکومت نے فوج کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ کسان جب سڑکوں پر اتر آئے تو گودی میڈیا نے انہیں کسان نہیں بلکہ دنگائی کہا تھا لیکن کسانوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور ایک سال سے زائد تک احتجاج جاری رکھتے ہوئے مودی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ۔ اگنی پتھ اسکیم فوج کے ساتھ بھیانک مذاق ہے اورملک کی سلامتی کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اسکیم کے تحت ہر سال 46 ہزار افراد کی بھرتی ہوگی جن میں سے 75 فیصد کو سال کے بعد علحدہ کردیا جائے گا ۔ فوج کی ٹریننگ کے لئے ایک تا دیڑھ سال کا وقت لگتا ہے ، ایسے میں صرف چار سال کے لئے کون ٹریننگ حاصل کرے گا۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ سرحد پر تعینات جوان ملک کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ جب ملازمت ہی چار سال کی ہو تو ملک سے محبت کیسے پیدا ہوگی۔ مودی حکومت ایک طرف فوج تو دوسری طرف ملک کی سلامتی کا سودا کرنا چاہتی ہے۔ نوجوانوں کے احتجاج کے بعد حکومت نے تقررات کے لئے عمر کی حد کو 21 سے بڑھاکر 23 کردیا ہے ۔ جس طرح کسانوں کے خلاف بنائے گئے قوانین کو واپس لینا پڑا ، مودی حکومت کو احتجاجی نوجوانوں کے آگے جھکنا پڑے گا۔ کئی برسوں سے روزگار کے انتظار میں ایک ایک لمحہ مصیبت کی طرح گزارنے والے نوجوانوں کو جب پتہ چلا کہ انہیں صرف چار سال کے لئے ملک کی خدمت کا موقع دیا جائے گا تو وہ انصاف کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ نوجوانوں کا حکومت سے سوال ہے کہ کیا 23 سال کے بعد آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے کہ وہ فوج میں برقرار نہیں رہ سکتا۔ فوج کے جتنے بھی اعلیٰ ترین اعزازات دیئے گئے ، وہ 30 سال اور اس سے زائد عمر کے جوانوں اور عہدیداروں کو حاصل ہوئے ہیں۔ نریندر مودی نے دیڑھ سال میں دس لاکھ روزگار فراہم کرنے کا اعلان کیا لیکن الیکشن کے وقت ہر سال دو کروڑ روزگار کی فراہمی کا وعدہ کہاں گیا۔ مودی حکومت میں بیروزگاری کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہوا ہے۔ اترپردیش اور دیگر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کی حکومتیں احتجاجیوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گی؟ کیا احتجاجیوں سے نقصانات کا ہرجانہ وصول کیا جائے گا ، جس طرح کے دہلی میں فسادات کے موقع پر مسلمانوں سے کیا گیا ؟ کیا احتجاجیوں کے مکانات پر یوگی کا بلڈوزر چلے گا ؟ ان سوالات کا جواب ظاہر ہے نفی میں ملے گا کیونکہ یوگی کا بلڈوزر بھی زعفرانی ہوچکا ہے۔ ملک کے حالات پر منظر بھوپالی نے حکومت سے کچھ اس طرح سوال کیا ہے ؎
مجھ کو اپنے بینک کی کتاب دیجئے
دیش کی تباہی کا حساب دیجئے