دیپک چورسیا او رسدھیر چودھری پھر شاہین باغ پہنچے

,

   

عوام نے زبردست نعرے بازی کرکے واپس جانے پر مجبور کیا‘ متعدد صحافیوں نے چورسیاکی صحافت پر بھی سوال اٹھائے کہا’یہ کسی خاص مشن پر شاہین باغ پہنچے‘ اس کی جانچ ہونی چاہئے‘۔

نئی دہلی۔ شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلا ف شاہین باغ میں دھرنے پر موجودخواتین کی غلط تصویر پیش کرنے کے بعد نیوز نیشن کے اینکر دیپک چورسیا پھر سے پیر کے روز شاہین باغ پہنچے۔

اس مرتبہ ان کے ساتھ زی نیوز کے اینکر سدھیر چودھری بھی تھے۔ یہ دونوں ہی پولیس کی سکیورٹی کے ساتھ شاہین باغ پہنچے‘

تاہم شاہین باغ میں مظاہرین نے نعرے لگاکر انہیں واپس جانے پر مجبور کردیا۔شاہین باغ کے مظاہرین کا کہناتھا کہ یہ دونوں ہی ایک خاص ایجنڈے کے تحت ائے تھے او روہ شاہین باغ کو بدنام کرنا چاہتے تھے‘ اس لئے وہاں موجود مظاہرین نے انپیں دھرنے کے مقام پر اانے کی اجازت نہیں دی۔

مظاہرین کا یہ بھی کہناتھا کہ یہ دونوں ہی اینکر ز بی جے پی کے سخت حامی اورفرقہ پرست ہیں اور ان دونوں کو کسی خاص سازش کے تحت شاہین باغ بھیجا گیاتھا۔

قابل ذکر ہے کہ چور سیاچند دن قبل بھی شاہین باغ پہنچے تھے جہاں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کررہے لوگوں نے ان سے کہاوہ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ انہیں ان پر بھروسہ نہیں ہے کہ وہ بعد ایڈٹ کرکے کیادکھائیں گے۔

اس کے بعد بھی دیپک چورسیا شاہین باغ کی رپورٹنگ کرنے پر بضد رہے جس کے بعد چند لوگوں نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا‘ لیکن بعد میں چورسیا نے الزام عائد کیا کہ ان کے ساتھ بدتمیزی ہوئی ہے اور ان کے کیمرہ کو توڑدیاگیا۔

چورسیا کے ساتھ پیش ائے واقعہ پر کئی صحافیوں نے بھی مختلف طرح سے ردعمل کا اظہار کیاہے۔اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دی وائر کی عارفہ خانم نے لکھا ”شاہین باغ میں چورسیا کے ساتھ مارپیٹ قابل مذمت ہے‘ تاہم یہ صحافت او رصحافیوں پر حملہ نہیں ہے کیونکہ حکومت کے تلوے چاٹنا صحافت نہیں ہے۔

مظلوم طبقات کو برے انسان کے طور پر پیشکرنا بھی صحافت نہیں‘ اس لیے ایک صحافی کی رعایت آپ کو نہیں مل سکتی ہے کیونکہ آ صحافی نہیں ہیں“۔

ایک دیگر صحافی نکھل واگھلے نے بھی دیپک چورسیا کے شاہین باغ جانے پر سوال اٹھایا۔ انہو ں نے لکھا ’دیپک چورسیا صحافی نہیں ہیں ’وہ شاہین باغ کسی خاص مشن پر گئے تھے‘ یاکچھ او رمعاملہ تھا‘ اس کی جانچ کی جانی چاہئے‘۔تاہم راہول کنول ے چورسیا کا دفاع کیاہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ ’چورسیا جس طرح کی صحافت کرنا چاہتے ہیں‘ انہیں اس کا حق ہے۔

اگر آپ اس کو دیکھنا نہیں چاہتے تو نہ دیکھیں‘ لیکن ان پر حملہ ناقابل قبول ہے۔

جبکہ اشوک سریواستو نے بھی چورسیا کادفاع کیاہے۔