ذات پات پر مبنی مردم شماری سےبی جے پی اور مودی کا مقابلہ

   

شیکھر گپتا
وزیراعظم نریندر مودی کو چیلنج کرنے والے چاہے وہ منقسم ہوں یا متحد ہوں یا پھر رکاوٹیں کھڑی کرنے والے زوروں پر ہوں وہ اگلے سال کے عام انتخابات ( عام انتخابات 2024 ) میں انہیں ( مودی کو ) اس وقت تک شکست نہیں دے سکتے جب تک ان کے پاس کوئی بڑا باالفاظ دیگر جادوئی آئیڈیا نہ ہو ۔ اگر اپوزیشن کا عظیم اتحاد ’’ انڈیا ‘‘ یہ سمجھتا ہیکہ ریاست بہار کی طرح سارے ملک میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کروانا ایک بڑا جادوئی آئیڈیا ہے تو راقم الحروف بہار سے متعلق آنجہانی گوپال کرشن گوکھلے کے تاریخی بیان کو آج کے سیاق و سباق سے جوڑنے کی جرات کرنا چاہوں گا ۔ بہار آج جو کچھ سوچتا ہے وہ کل ایک دن پہلے سوچتا تھا جیسا کہ ہم نے ” Cut the Clutter ” ایپی سوڈ میں ڈیٹا کے ساتھ بتایا ہے بہار میں سماجی انصاف کی تحریک نے 1990 تک پسماندہ طبقات کے قدم سیاسی طور پر مضبوط و مستحکم کردیئے تھے اور وہ بھی بڑی کامیابی کے ساتھ اس کے بعد اس نے کوئی ترقی نہیں کی اور یہاں تک کہ اس نے وسیع تر معاشی بااختیارپن کے مواقع کو وسیع بنانے اور عوام کی معیار زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو بہار ماڈل ملک کیلئے ایک طرح سے بہت ہی مایوس کن پیشکش ثابت ہوا ہاں اس نے بہار میں سیاسی جماعتوں اور قائدین کیلئے اچھا کام کیا اگر آج تمام پسماندہ طاقتیں بی جے پی کے خلاف دوبارہ متحد ہوجائیں تو وہ مودی کو بہار میں ہی نقصان پہنچاسکتی ہیں جہاں 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی اپنے بل بوتے پر 17 پارلیمانی نشستوں پر کامیاب رہی تھی اب آپ اس کے ارکان پارلیمان کی تعداد میں کتنی کمی لاسکتے ہیں ؟ صاف بات یہ ہیکہ اس حکمت عملی سے مودی کو شکست فاش دینے کیلئے سارے ملک کو بہار کے رنگ میں رنگنے کی ضرورت نہیں ہاں آپ ( اپوزیشن جماعتوں ) کو اس حکمت عملی کو اپنانے کی صرف اُترپردیش ، مدھیہ پردیش ، راجستھان ، گجرات ، مہاراشٹرا اور ہریانہ اور اترکھنڈ میں ضرورت ہوگی اور ان ریاستوں میں اپوزیشن مذکورہ حکمت عملی اپناسکتی ہے پھر بھی اگر آپ ان میں سے کسی بھی ریاست میں ذات پات کی مساوات اور روایتی وفاداریوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ ذات پات پر مبنی جس مردم شماری کا انتظار کررہے تھے وہ ریاست کے حدود سے باہر نہیں پھیل سکتی جہاں یہ 1967 کے دہے میں وجود میں آئی تھی ۔مگر آپ میرے خیالات یا دلائل یہاں تک کہ میرے تعصبات پر کیوں بھروسے کریں جبکہ ہوشیار لوگ پہلے ہی سے ذات پر مبنی مردم شماری کو ایک انقلاب قرار دے چکے ہیں اور راہول گاندھی نے تو اس نعرے کی بھرپور تائید و حمایت کی ہے جس میں کانشی رام نے کہاتھا ’’ جس کی سنکھیا بھاری اس کی اتنی حصہ داری یعنی جس کی جتنی تعداد زیادہ ہے اس کا حصہ بھی زیادہ ‘‘ اب آیئے 2019 کے عام انتخابات کے چند حقائق پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم کدھر جارہے ہیں ؟ دی پرنٹ کے اموگھ روہمترا کے ایک مضمون میں جو تفصیلات پیش کی گئیں ہیں ان سے یہ واضح ہیکہ مودی۔ دوسرے 1989 کے بعد کی کانگریس کے برعکس مودی اتنے سیدھے سادہ نہیں ہیں کہ وہ پسماندہ کارڈ کھیلنے کیلئے خود کو او بی سی کے طور پر پیش کریں ۔ تیسرے یہ کہ پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کی اتحادی سیاست صرف اس وقت کارگر ثابت ہوتی ہے جب آپ تقریباً 30 فیصد ووٹ حاصل کر کے انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں جیسا کہ کبھی ہندی بولنے والی ریاستوں میں ہوا کرتا تھا ۔ آج جب دوسری پارٹی 50 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر شروع ہوتی ہے تو کامیابی کی بلندی تک پہنچنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی آپ کو مقابل پارٹی کے حاصل کردہ ووٹوں کے فیصد کو عبور کرنے زیادہ طاقت مضبوط پکڑ مضبوط قدموں اور دوسری خوبیوں کی ضرورت ہوتی ہے ذات پات کی مردم شماری اور کانشی رام کے فرسودے نسخہ کام نہیں کریں گے یہاں کانشی رام کی دانشمندی اور سیاسی بصیرت و دوراندیشی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا یقیناً وہ اپنے وقت کے بلند قامت سیاستداں سماجی مصلح اور دانشور تھے اس کے علاوہ پسماندہ طبقات یعنی درج فہرست طبقات و قبائیل اور اقلیتیں اس وقت سیاسی اقتدار حاصل کرنے بے چین تھیں اور اس کا ناقابل یقین اور دیرپا اثر ہوا نتیجہ میں سیاست کا رخ ہی بدل کر رہ گیا ہے ۔ ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس سوشیل انجینئرنگ سے کچھ ہداف حاصل کرنے میں کامیابی ملی چنانچہ ہندوستان میں ایک او بی سی وزیراعظم اور ایک قبائیلی ( خاتون ) صدر ہے جبکہ کانگریس کے چار چیف منسٹروں میں سے تین کا تعلق دیگر پسماندہ طبقات ( او بی سیز ) سے ہے لیکن آپ اس امکان کا اندازہ نہیں لگاسکتے کہ آیا وہ لہر دوبارہ ابھرے گی یا نہیں ؟ یہ جانچ کئے بناء کہ ان دیگر ذاتوں کے زیادہ تر رائے دہندے مودی کی جانب کیوں گئے ان کی تائید کیوں کی ؟ وسیع پیمانے پر یہی تاثر دیا جاتا ہے اور میں خود اس تاثر کے بارے میں بات کررہا ہوں کیونکہ بہت سے ایگزٹ پولس اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آج ہندوستان میں اعلی ذات کا ووٹ بنک سب سے زیادہ محفوظ ہے اور یہ پوری طرح بی جے پی کے قبضہ میں یا حق میں نظر آتا ہے ۔ بہار میں ذات پر مبنی جو مردم شماری ہوئی ہے اس نے یہ دکھایا ہے کہ یہ ووٹ بنک ( اعلی ذات کا ووٹ بنک ) کتنا چھوٹا ہے باالفاظ دیگر اگر ہم بہار میں تمام ہندو اعلی ذاتوں کو جمع کرلیں تو ان کی کل آبادی 12 فیصد ہے ۔ اب فرض کریں کہ اعلی ذات کے ہندووں کی کل آبادی 15 فیصد ہے ۔ 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو 37 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے اب سوال یہ پیدا ہونا ہے کہ اگر 15 فیصد اعلی ذات نے مودی کو ووٹ دیا تو مابقی 22 فیصد ووٹ اسے کہاں سے حاصل ہوئے ۔ بی جے پی کو یہ 22 فیصد ووٹ اس لئے حاصل ہوئے کیونکہ متوسط اور پسماندہ ذات کا ہندو ووٹ بنک ، منڈل ، کانشی رام ووٹ بنک سے ہٹ کر مودی کے حق میں چلا گیا ایسے میں کیا اپوزیشن ( انڈیا ) ذات پات پر مبنی مردم شماری اور متناسب حصہ داری کا وعدہ کر کے ان رائے دہندوں کی تائید دوبارہ حاصل کرسکتی ہے ؟ موجودہ حالات میں اپوزیشن کو کچھ بڑی کچھ مختلف اور پرامید سوچ و فکر کی ضرورت ہے راہول گاندھی نے بھارت جوڑواور نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کے نظریات کے ساتھ کچھ ایسی ہی کوشش کی تھی ۔ بی جے پی اور مودی کو چیلنج دینے انہیں للکارنے کیلئے نئے فارمولوں نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔