رات کو معلوم ہے جگنو میں ہمت ہے بہت

   

مودی کے نام سے اسٹیڈیم … گیم چینجر نہیں نیم چینجر
ورلڈ ٹور سے اب انڈیا الیکشن ٹور

رشیدالدین
کھیل اور سیاست کا رخ موڑنے والے کو گیم چینجر کہا جاتا ہے لیکن نریندر مودی ملک میں نیم چینجر کے طور پر ابھرے ہیں۔ انسان کے کام اور کارنامے اس کی مقبولیت اور شہرت کے ضامن ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں نام ہوتا ہے ۔ عام طور پر اچھے کاموں سے دنیا میں چرچہ ہوتا ہے لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا ماننا ہے کہ ’’بدنام بھی ہوں تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ یعنی شہرت کے لئے انہیں اچھے کاموں کی فکر نہیں ہوتی بلکہ وہ کسی نہ کسی طرح نام کمانا چاہتے ہیں۔ بھلے ہی انداز مثبت ہو یا منفی ۔ نریندر مودی کی مقبولیت دنیا بھر میں کچھ کم نہیں ہے۔ یہ مقبولیت وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے سے ہے۔ گجرات فسادات کے وقت دنیا بھر میں نریندر مودی کا تعارف ہوا تھا اور امریکہ نے تو ویزا دینے سے تک انکار کردیا تھا ۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ یہی مودی جب وزیراعظم بن گئے تو امریکہ کی ڈارلنگ بن گئے۔ جن کی شہرت کا آغاز اس طرح سے ہو تو پھر ان سے اچھائی کی امید کرنا عبث ہے۔ 2014 لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی بی جے پی کے لئے گیم چینجر ثابت ہوئے تھے لیکن وزارت عظمی کے 7 برسوں میں وہ ملک کے حالات اور عوام کے معیار زندگی میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے۔ مسائل میں کمی کے بجائے روز افزوں اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ دنیا اور خاص طور پر ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ کارناموں ، ایجادات اور عوامی خدمات کے نتیجہ میں کئی شخصیتوں نے عوام کے دلوں میں جگہ بنالی ہے ۔ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود آج بھی انہیں اچھے نام سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ دنیا کی تاریخ کے بعض منفی کردار بھی تاریخ میں زندہ ہیں۔ انسان پر منحصر ہے کہ وہ مثبت انداز میں شہرت پائے یا منفی شہرت حاصل کرے۔ جیسے کام اور کرم ہوں گے ویسا ہی پھل ملے گا۔ رعایا پروری کے لئے اکبر اعظم اور اشوک تاریخ میں زندہ ہیں تو ظلم و بربریت کی علامت کے طور پر ہٹلر ، مسولنی ، ہلاکو اور چنگیز خاں کو بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ فی زمانہ عوام کی تعریف ، توصیف اور ستائش کے لئے اچھے کام کرنے پڑتے ہیں۔ جب کوئی کارنامہ ہی نہ ہو جس کی بنیاد پر عوامی تائید اور ستائش حاصل ہوسکے تو انسان خود ستائی کا عادی بن جاتا ہے ۔ ایسے لوگ اپنی زندگی میں ہی اپنی یادگاریں قائم کرنے لگتے ہیں کیونکہ بعد از مرگ تو اس کی امید نہیں رہتی ۔ کامیاب لیڈر کی پہچان یہی ہے کہ عوام تعریف کریں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے احمد آباد میں تعمیر کردہ دنیا کے سب سے بڑے اسٹیڈیم کا نام اپنے نام سے موسوم کرلیا ہے۔ مودی کا یہ اقدام خود ستائی کی انتہا ہے۔ سردار پٹیل کا نام تبدیل کر کے نریندر مودی کا نام رکھ دیا گیا۔ اچھا ہوا مودی نے صرف اسٹیڈیم کے نام تک ہی سوچا ، اس سے آگے سوچتے تو سردار پٹیل سے بڑا اپنا مجسمہ بھی تیار کرلیتے۔ سردار پٹیل کے نام سے آج تک سیاست کی جاتی رہی لیکن احمد آباد میں اسٹیڈیم پر پہلے سے موجود ان کا نام تبدیل کردیا گیا ۔ مطلب یہ ہے کہ مودی کی شخصیت سردار پٹیل سے بھی قدآور ہوچکی ہے۔ مرکز میں اقتدار کے 7 برسوں میں شائد بی جے پی کو سردار پٹیل کا متبادل مل چکا ہے اور آئندہ انتخابی اور سیاسی فائدہ کیلئے سردار پٹیل کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ دنیا کے دو بڑے واقعات سے مودی کا نام جڑ چکا ہے۔ ایک دنیا کا سب سے بڑا اسٹیڈیم اور دوسرا گجرات فسادات جو شائد دنیا کی تاریخ کے بڑے سانحات میں شامل ہیں۔ اپنی ریاست میں اپنا نام رکھ لینا کوئی بڑی بات نہیں۔ کمال تو یہ ہوتا جب عوام اپنی جانب سے نام رکھتے ۔ اسٹیڈیم کا نام سن کر ایل کے اڈوانی پر کیا گزری ہوگی جو کبھی بی جے پی کیلئے سردار پٹیل کی طرح مرد آہن کہے جاتے تھے۔ اڈوانی جنہیں خود ان کی ریاست میں بلکہ برسوں تک ان کی نمائندگی والے حلقہ لوک سبھا احمد آباد کی تقریب میں مدعو تک نہیں کیا گیا ۔ ان کے دل پر کیا گزری ہوگی۔ یقیناً وہ سوچ رہے ہوں گے کہ کاش ملک کے نائب وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی کچھ یادگاریں قائم کرلیتے تو شائد آج افسوس کرنا نہ پڑتا۔ نریندر مودی نے اپنے سیاسی گرو کا جو حشر کیا ہے ، وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ جس نے سیاسی زندگی بخشی اور گجرات سے دہلی کے تخت تک پہنچایا ان کے سیاسی کریئر کو شاگرد نے تاریکی میں غرق کردیا ۔ جو شخص اپنی شریک حیات اور پھر سیاسی گرو کا وفادار نہ ہوسکا ، اس سے عوام کی بھلائی کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے۔ آر ایس ایس میں شخصیت پرستی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ خود کو گوشۂ گمنامی میں رکھتے ہوئے ہندوؤں اور ہندو دھرم کیلئے وقف ہوجانے کا رواج ہے لیکن اسٹیڈیم کا نام مودی سے موسوم کرنا نئے رجحانات کا پتہ دیتا ہے یا پھر حکومت پر آر ایس ایس کی گرفت کمزور ہوچکی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مختلف شعبہ جات میں نمایاں خدمات پر بعد از مرگ کسی پراجکٹ یا عمارت کو ان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن نریندر مودی نے اپنی حیات میں ہی اپنا نام رکھنا شروع کردیا۔ شائد عہدہ سے ہٹنے کے بعد آنے والوں پر انہیں بھروسہ نہیں ہے۔ مودی نے نہ صرف نام پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ’’ہم دو ہمارے دو‘‘ کے نعرہ کو عملی شکل دے دی ۔ وہ خوشی کے موقع پر اپنے صنعت کار دوستوں کو کیسے بھول سکتے تھے ۔ اسٹیڈیم میں ہند۔انگلینڈ کرکٹ میچ کے دوران پچ کے دونوں کناروں جہاں سے بولنگ اور بیٹنگ کی جاتی ہے، انہیں امبانی اور اڈانی کے نام سے رکھا گیا۔ اسے کہتے ہیں ’’میری دوستی میرا پیار‘‘ جس طرح ہر اوور کے بعد بیٹنگ اور بولنگ کا رخ تبدیل ہوجاتا ہے ، لہذا مودی ، امبانی اور اڈانی دونوں جانب سے بیٹنگ کرنا چاہیں گے۔ مودی کو اپنے وزیر باتدبیر امیت شاہ کے نام سے اسٹیڈیم کا کوئی گوشہ موسوم کرنا چاہئے تاکہ ان کا حشر اڈوانی جیسا نہ ہو۔ ویسے بھی امیت شاہ کے فرزند کرکٹ کنٹرول بورڈ میں اہم عہدہ پر ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ کسی اور اسٹیڈیم کو اپنے والد کے نام سے موسوم کردیں۔ ناموں کے مسئلہ پر بی جے پی اور سنگھ پریوار ہمیشہ نہرو۔گاندھی خاندان کو نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن اب وہ خود اسی راستہ کے مسافر بن گئے اور خاندانی وراثت کی طرح مخصوص نظریات کے حامل قائدین کے ناموں کی تشہیر کی جارہی ہے۔ مودی کو شائد یقین ہو چلا ہے کہ ان کے بعد اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کی طرح ان کا بھی حشر ہوگا۔ لہذا عہدہ پر رہتے ہوئے اپنی یادگاریں قائم کر رہے ہیں کیونکہ کل کیا ہوگا کس نے دیکھا۔ احمد آباد کے اسی اسٹیڈیم میں مودی نے ٹرمپ کا امریکی صدر کی حیثیت سے استقبال کیا تھا جس کے بعد ٹرمپ کو صدارتی انتخابات میں شکست ہوگئی ۔ اسی اسٹیڈیم کی نئی تعمیر کے بعد مودی نے اپنا نام رکھا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی کے سیاسی سفر پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔

وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد مودی نے ورلڈ ٹور کا آغاز کیا تھا اور انتہائی کم عرصہ میں انہوں نے ریکارڈ تعداد میں بیرونی دورے کئے ۔ گزشتہ سال مارچ سے کورونا وباء نے مودی کے ورلڈ ٹور پر روک لگادی ہے اور انہیں انڈیا الیکشن ٹور میں مشغول کردیا ہے۔ جس ریاست کا الیکشن قریب ہوتا ہے ، نریندر مودی اس ریاست میں فلاحی اور ترقیاتی اسکیمات کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں۔ مرکزی بجٹ کو بھی مودی نے الیکشن بجٹ میں تبدیل کردیا ہے۔ مغربی بنگال ، آسام ، ٹاملناڈو، کیرالا اور پوڈی چیری اسمبلی انتخابات کی مہم کے سلسلہ میں نریندر مودی اور امیت شاہ ریاستوں کا متواتر دورہ کرتے ہوئے رائے دہندوں کو اپنی لفاظی اوردعوؤں سے متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پوڈی چیری جانے سے پہلے مودی نے وہاں کی کانگریس حکومت کو زوال سے دوچار کردیا۔ شائد انہیں پسند نہیں تھا کہ ترقیاتی اسکیمات کے افتتاح کے موقع پر کانگریس کے چیف منسٹر نارائن سوامی ان کے ساتھ کھڑے رہیں۔ آسام میں بی جے پی کو دوبارہ اقتدار پر آنا ہے جبکہ باقی ریاستوں میں اپوزیشن سے اقتدار چھیننا ہوگا۔ ٹاملناڈو اور کیرالا میں بی جے پی کیلئے یہ کام آسان ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ دونوں ریاستوں میں علاقائی جماعتوں کا غیر معمولی اثر ہے اور بی جے پی صرف اپنی نشستوں میں اضافہ کرسکتی ہے۔ مغربی بنگال میں بی جے پی نے ترنمول کانگریس میں بڑے پیمانہ پر انحراف کے ذریعہ ممتا بنرجی کو کمزورکرنے کی کوشش کی ہے۔ بی جے پی کی یلغار سے ممتا بنرجی کا موقف یقیناً کمزور دکھائی دے رہا ہے لیکن انتخابات تک سیاسی صورتحال کیا ہوگی اور اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کہا نہیں جاسکتا۔ ممتا بنرجی اپنے دعوے کے مطابق کیا مغربی بنگال الیکشن میں ’’گول کیپر‘‘ ثابت ہوں گی تاکہ بی جے پی کو گول بنانے سے روکا جاسکے۔ موجودہ حالات پر ڈاکٹر بشیر بدر کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
رات تاروں سے الجھ سکتی ہے ذروں سے نہیں
رات کو معلوم ہے جگنو میں ہمت ہے بہت