رات کے بعد نئے دن کی سحر آئے گی

   

بہار… شاخ نازک پر آشیانہ ناپائیدار ہوگا
عوام کا فیصلہ تیجسوی … الیکشن کمیشن کا نتیجہ نتیش کمار
شخصی آزادی … ارنب کو ضمانت … دوسروں کی سماعت بھی نہیں

رشیدالدین
جنگ اور لڑائی بھلے کسی محاذ پر ہو بعض شخصیتیں جیت کر بھی ہار جاتی ہے جبکہ بعض دوسرے ہار کر بھی فاتح کی حیثیت سے عوام کے درمیان ابھرتے ہیں۔ کچھ یہی حال بہار کے اسمبلی انتخابات میں نتیش کمار اور تیجسوی یادو کا ہے ۔ 15 سال کی مسلسل حکمرانی کے بعد دوبارہ کامیاب ہونے والے نتیش کمار جیت کر بھی عوام کی نظر میں ناکام ہیں جبکہ آر جے ڈی زیر قیادت مہا گٹھ بندھن کے کپتان تیجسوی یادو شکست کے باوجود میان آف دی میچ رہے۔ آئی پی ایل ٹی 20 سیریز میں ہم نے دیکھا کہ میان آف دی میچ ایوارڈ کے لئے کھلاڑی کا جیتنے والی ٹیم سے تعلق ضروری نہیں۔ ناکام ٹیم کے کھلاڑی کو مظاہرہ کی بنیاد پر میان آف دی میچ اور گیم چینجر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ٹھیک اسی طرح بہار کے سیاسی میچ میں نتیش کمار بھلے ہی عددی طاقت کی بنیاد پر کامیاب رہے لیکن مظاہرہ اور مقبولیت کے اعتبار سے تیجسوی یادو کو عوام ہی نہیں بلکہ مخالفین نے بھی میان آف دی میچ کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ تیجسوی یادو نے ون میان آرمی کی طرح این ڈی اے سے مقابلہ کیا ۔ وزیراعظم نریندر مودی ، چیف منسٹر نتیش کمار ، یوگی ادتیہ ناتھ اور مرکزی وزراء کو انتخابی مہم میں اتارا گیا لیکن کم سیاسی تجربہ کے باوجود تیجسوی نے ان کا یکا و تنہا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ کانگریس کی جانب سے راہول گاندھی نے انتخابی مہم چلائی لیکن کانگریس اور بائیں بازو کو اپنے کاندھوں پر تیجسوی یادو ڈھوتے رہے۔ مہا گٹھ بندھن کو جو بھی نشستیں حاصل ہوئیں وہ صرف اور صرف تیجسوی یادو کی محنت کا پھل ہے ۔ انتخابی مہم میں تبدیلی کی لہر تھی اور رائے دہی کی تکمیل کے بعد اگزٹ پولس میں مودی کے گودی میڈیا نے بھی مہا گٹھ بندھن کو اکثریت کی پیش قیاسی کردی تھی ۔ جب ملک کے تمام اہم میڈیا گھرانوں کا پول تیجسوی کے حق میں تھا تو پھر نتائج میں فرق کیسے ہوسکتا ہے ۔ اگزٹ پول کو اگزاکٹ پول نہیں کہا جاسکتا لیکن جب رائے دہندوں کے رجحان کے لحاظ سے تمام چیانلس کی ایک رائے تھی تو پھر کس طرح نتائج میں فرق آسکتا ہے ۔ ایسا نہیں تھا کہ بعض چیانلس کی رائے مختلف رہی ہو۔ تمام اگزٹ پولس کے منافی نتائج کا آنا عوام کے ذہنوں میں شبہات پیدا کر رہا ہے۔ نتیش کمار کے مایوس کن بیان اور آخری بار موقع دینے کی اپیل سے صاف ہوچکا تھا کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرچکے ہیں لیکن رائے دہی کے دن ایسا کچھ ہوا کہ نتائج الٹ گئے ۔ دال میں کچھ کالا ضرور ہے یا پھر پوری دال ہی کالی ہے۔ اس کا خلاصہ آنے والے دنوں میں ہوجائے گا ۔ تیجسوی یادو نے درست کہا ہے کہ عوام کا فیصلہ مہا گٹھ بندھن کے حق میں ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے نتائج این ڈی کے ساتھ رہے۔ ظاہر ہے کہ عوامی فیصلے اور الیکشن کمیشن کے نتائج میں کافی فرق ہے اور اسے ثابت کرنے کیلئے مختلف شواہد موجود ہیں۔ 20 حلقے ایسے ہیں جہاں مہا گٹھ بندھن کو محض 20 تا 200 ووٹوں سے شکست ہوئی ۔ ایک حلقہ میں صرف 12 ووٹ سے آر جے ڈی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ شکست بہرحال شکست ہے۔ چاہے ایک ووٹ سے کیوں نہ ہو لیکن ووٹوں کی گنتی میں عملہ کی جانب سے دھاندلیوں کی شکایت ہے۔

الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق پوسٹل بیالٹ کی گنتی صبح پہلے کی جاتی ہے لیکن یہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی گنتی کے بعد پوسٹل بیالٹ کی رائے شماری کی گئی۔ اتنا ہی نہیں 20 حلقوں میں 100 تا 800 پوسٹل بیالٹس مسترد کردیئے گئے ۔ اس قدر بڑی تعداد میں پوسٹل بیالٹ کا مسترد کیا جانا کسی اعتبار سے ہضم نہیں ہوگا کیونکہ قابل اور تعلیم یافتہ افراد جو الیکشن ڈیوٹی کے عہدیدار اور ملازم ہوتے ہیں، وہ ووٹ کے استعمال میں غلطی کیسے کرسکتے ہیں ؟ باوجود اس کے سینکڑوں پوسٹل بیالٹ مسترد کئے گئے اور گٹھ بندھن کے امیدواروں کے اعتراضات کو نامنظور کردیا گیا ۔ بعض مقامات پر مہا گٹھ بندھن امیدواروں کو کامیاب قرار دینے کے کچھ دیر بعد نتیجہ تبدیل کردیا گیا ۔ جس طرح بہار جنگل راج کے لئے مشہور ہے ، کہیں رائے شماری میں اس کا مظاہرہ تو نہیں کیا گیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ الیکشن اسٹاف کو این ڈی اے کو کامیاب بنانے کا مشن حوالے کیا گیا ہو۔ الغرض این ڈی اے بھلے ہی کامیاب ہوچکی ہے اور نتیش کمار کے چوتھی مرتبہ چیف منسٹر بننے کا خواب پورا ہوگا لیکن باڈی لینگویج دیکھیں تو نتیش کمار خود بھی اس نتیجہ سے مطمئن دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ انہیں یقین نہیں ہورہا ہے کہ یقینی شکست کامیابی میں تبدیل کیسے ہوگئی۔ مودی کا جادو بھی تیجسوی کے بڑھتے قدم روک نہ سکا اور آر جے ڈی واحد بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ حالانکہ بی جے پی نے سنگل لارجسٹ پارٹی کا خواب دیکھا تھا ۔ بہار نتائج کے بعد یوگی ادتیہ ناتھ اور دوسرے بھکتوں نے نعرہ لگایا کہ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ یہ نعرہ دراصل یوں ہونا چاہئے کہ ’’الیکشن کمیشن ہے تو ممکن ہے‘‘ ۔

ظاہر ہے کہ جب مودی مرکز میں برسر اقتدار ہوں اور تابعداری کرنے والا الیکشن کمیشن ہو تو کچھ بھی ممکن ہوگا۔نتیش کمار کی قیادت میں حکومت تشکیل پا جائے گی لیکن یہ ایک کمزور اور غیر مستحکم حکومت ہوگی ۔ شاخ نازک پر بننے والا آشیانہ ناپائیدار ہوتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح بی جے پی قیادت چیف منسٹر کی کرسی پر نتیش کمار کو زیادہ دن برداشت نہیں کرسکتی۔ این ڈی اے کی بی ٹیم کو کمزور مظاہرہ کے باوجود چیف منسٹر کا عہدہ بی جے پی کی مجبوری ہے ۔ بی جے پی کے پاس کوئی چہرہ عوام کے درمیان پیش کرنے کے لائق نہیں تھا ۔ لہذا نریندر مودی نے نتیش کمار کے نام کا پہلے ہی اعلان کردیا تھا ۔ بہار بی جے پی قائدین زیادہ دن تک صبر نہیں کرسکتے اور ان کی نظریں چیف منسٹر کی کرسی پر جمی رہیں گی ۔ کسی نہ کسی طرح آئندہ چند ماہ میں نتیش کمار پر دباؤ بناکر کرسی چھوڑنے کیلئے مجبور کیا جائے گا ۔ سطح کے نیچے طوفان کو زیادہ دنوں تک روکا نہیں جاسکتا۔ جے ڈی یو کے ناقص مظاہرہ کے سبب نتیش کمار نفسیاتی طورپر کمزور رہیں گے ۔ ایسے حالات میں کیا نتیش کمار دباؤ کے آگے جھک جائیں گے یا پھر وفاداری بدلنے کی مہارت اور مزاج کے مطابق دوبارہ آر جے ڈی سے اتحاد کرلیں گے ؟ مبصرین کے مطابق نتیش کمار ہے تو کچھ بھی ممکن ہے ۔ وہ 2015 ء کی تاریخ دہراتے ہوئے جے ڈی یو سے اتحاد کرتے ہوئے گھر واپسی کرسکتے ہیں اور چاچا بھتیجہ کا اقتدار دوبارہ واپس آسکتا ہے۔ بہار کے عوام کو شائد اسی گھڑی کا انتظار ہے۔

شخصی آزادی کا احترام اور تحفظ نہ صرف حکومتوں بلکہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے لیکن اگر شخصی آزادی کے معیارات دہرے اور جانبدارانہ رہیں تو پھر عام آدمی کو انصاف کیسے ملے گا۔ جمہوریت میں عدلیہ انصاف کے لئے آخری کرن تصور کی جاتی ہے لیکن اگر عدلیہ شخصی آزادی کے نام پر مخصوص افراد کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ کرے تو پھر اس کی غیر جانبداری پر سوال اٹھنا ضروری ہے ۔ گزشتہ دنوں ریپبلک چیانل کے متنازعہ اینکر ارنب گوسوامی کو سپریم کورٹ نے شخصی آزادی کے نام پر فوری ضمانت دے دی ۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ سپریم کورٹ نے ارنب گوسوامی کی درخواست کو فوری طور پر نہ صرف قبول کیا بلکہ ضمانت بھی فوری منظور کردی۔ سپریم کورٹ میں ایسی سینکڑوں درخواستیں موجود ہیںجن میں شخصی آزادی کے احترام کی اپیل کی گئی ہے لیکن ان درخواستوں کی کوئی سماعت نہیں ہوتی۔ سپریم کورٹ کے وکلاء کی تنظیم نے بھی ارنب گوسوامی کی درخواست کی قبولیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے دیگر درخواستوں کو سماعت کی فہرست میں طویل عرصہ سے شامل نہیں کیا گیا لیکن ارنب گوسوامی کے ساتھ اس طرح کی ہمدردی باعث حیرت ہے۔ کشمیر میں دفعہ 370 کی برخواستگی کے بعد نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور دیگر جماعتوں اور تنظیموں کے سینکڑوں قائدین اور جہد کاروں کو جیلوں میں بند کردیا گیا۔ فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی ایک سال سے زیادہ قید میں رہے لیکن سپریم کورٹ نے ان کی درخواستوں کی سماعت نہیں کی۔ کیا شخصی آزادی کا احترام صرف ایک مخصوص گوشہ کے لئے ہے؟ سپریم کورٹ نے ارنب گوسوامی کو ضمانت دیتے ہوئے ممبئی ہائی کورٹ پر نکتہ چینی کی اور یہاں تک کہا کہ ریاستی حکومتیں افراد کو نشانہ بناتی رہیں تو یہ جان لینا چاہئے کہ سپریم کورٹ نام کی کوئی چیز ہے جو شہریوںکی آزادی کا تحفظ کرتی ہے۔ عدالت کا یہ خیال کیا ہر شہری کیلئے یکساں رہے گا یا پھر مخصوص افراد کے لئے ہوگا ؟ سپریم کورٹ کی نظر میں کیا تمام شہری یکساں نہیں ہیں ، اگر ہیں تو تو پھر دہرا معیار اور امتیازی سلوک کیوں ؟ ملک کی مختلف جیلوں میں جہد کار اور طلبہ تنظیموں کے قائدین کو این آر سی ، سی اے اے مخالف احتجاج حتیٰ کہ دہلی فسادات کے نام پر غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔ کاش سپریم کورٹ ان کی شخصی آزادی کا بھی احترام کرتے ہوئے رہائی کا حکم دے گی۔ ندا فاضلی نے کیا خوب کہا ہے ؎
رات کے بعد نئے دن کی سحر آئے گی
دن نہیں بدلے گا تاریخ بدل جائے گی