راجستھان ،سوریہ نمسکار کا لزوم

   

راجستھان میں گذشتہ اسمبلی انتخابات کے بعد جس وقت سے بی جے پی حکومت قائم ہوئی ہے ریاست میں مسلسل صورتحال کو بگاڑنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ ہوا محل حلقہ سے رکن اسمبلی منتخب ہونے کے فوری بعد اور ایوان کی رکنیت کا حلف لینے سے پہلے ہی ایک رکن اسمبلی نے سارے حلقہ میں گھوم کر مسلمان تاجرین کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا ۔ وہ گوشت کی دوکانات اور مسلم ہوٹلوںکو بند کروانے کی مہم پر تھے ۔ ان سے طرح طرح کے سوال ہو رہے تھے ۔ پولیس اور ریاستی انتظامیہ بھی ان کی اس حرکت میں برابر کا شریک ہوگیا تھا ۔ اس کے بعد اسی رکن اسمبلی نے یوم جمہوریہ کے موقع پر اسکولس میں مسلم لڑکیوں کے حجاب استعمال کرنے پر تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ حجاب کی اجازت دینے والے انتظامیہ کی سرزنش سے بھی انہوں نے گریز نہیں کیا تھا اور اب تو باضابطہ طور پر راجستھان کے اسکولس میں سوریہ نمسکار کو لازم کردیا گیا ہے ۔ یہ بھی در اصل مسلم طلبا و طالبات کو نشانہ بنانے کی کوشش ہی ہے جس طرح کرناٹک میں بی جے پی حکومت کے دور میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر امتناع عائد کردیا گیا تھا ۔ اس امتناع کی وجہ سے نہ صرف طالبات بلکہ خاتون اساتذہ کیلئے بھی مسائل پیدا ہوگئے تھے ۔ اب راجستھان میں سوریہ نمسکار کے لزوم کے ذریعہ بھی وہی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس ساری صورتحال کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں بھی ہندوتوا کی سوچ کو عام کردیا جائے ۔ مسلمانوں کے وجود کو برداشت نہ کیا جائے بلکہ ان کا عرصہ حیات تنگ کردیا جائے اور انہیں حاشیہ پر کھڑا کردیا جائے ۔ یہ کوششیںقابل مذمت ہیں۔ سوریہ نمسکار کا لزوم مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے خلاف ہے اور ملک میں ہر مذہب کے ماننے والوںکو دستور میں کچھ حقوق دئے گئے ہیں اور یہ لزوم ان کی خلاف ورزی ہی کہا جاسکتا ہے ۔ سوریہ نمسکار کا نہ حب الوطنی سے تعلق ہے اور نہ ہی ملک کے مفادات سے کوئی تعلق ہے ۔ یہ ایک محض اور خالص مذہبی مسئلہ ہے جس کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ ایسا کرنا بالکل بھی مناسب نہیں ہے ۔
ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تعلیم کو بہتر سے بہتر بنانے پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ طلبا و طالبات کو ایک اچھا شہری اور اچھے اخلاق والا انسان بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ان میں ملک اور قوم کے مفادات کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اخلاقیات اور ایک دوسرے کے احترام اور عزت کی تعلیم دی جانی چاہئے ۔ انہیں ایک ایسا پرسکون ماحول فراہم کیا جانا چاہئے جس میں ان کی اختراعی صلاحیتوں کو خوب فروغ حاصل ہوسکے ۔ تعلیمی اداروں میں ہی اگر نوجوانوںاور طلبا و طالبات کی سوچ کو پراگندہ کردیا جائے تو نہ صرف ان کا مستقبل روشن اور تابناک بننے سے رہ جائیگا بلکہ اس سے ملک کے مستبل کیلئے بھی مشکل صورتحال پیدا ہوسکتی ہے ۔ طلبا و طالبات اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ ہندوستان کو دنیا کی بڑی طاقت بنانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ آج تعلیم ہی کی بدولت ہندوستان ساری دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے ۔ مائیکروسافٹ سے لے کر گوگل تک اور دیگر کئی بڑے عالمی اداروں کے سربراہ ہندوستانی شہری ہیں۔ یہ ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے ۔ ہمیں اس اعزاز کو برقرار رکھنے اور مستقبل میں بھی کئی عالمی فورمس میںہندوستانی نوجوانوں کو مواقع فراہم کرنے کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ طلبا و طالبات میں نفرت اور ایک دوسرے سے دوریوں کی بجائے ایک دوسرے سے بہتر تعلقات اور اخوت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ طلبا میں پرامن بقائے باہم کے اصولوںکو پروان چڑھایا جانا چاہئے ۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ تعلیم ہی کے ذریعہ دنیا کو فتح کیا جاسکتا ہے ۔ ساری دنیا میں ہندوستان کے پرچم کو سربلند کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی عملی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہم تعلیمی اداروں ہی کو ذہنی پراگندگی کا مرکز بنادیں اور وہاں طلبا و طالبات کی اختراعی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی بجائے انہیں منفی سوچ کا حامل بنادیں تو پھر عالمی سطح پر ہندوستان کو جو کلیدی اور مرکزی مقام حاصل کرنا وہ خواب ادھورا رہ سکتا ہے ۔ سوریہ نمسکار کے لزوم سے سرکاری تعلیمی اداروںکو اجتناب کرنے کی ضرورت ہے ۔تمام مذاہب کو ایک نظر دیکھنے اور ہر ایک کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا ہم سب کا فریضہ ہے جس کو پورا کیا جانا چاہئے ۔ منفی سوچ کو پروان چڑھنے سے روکنے کی بھی ضرورت ہے ۔