رافیل ‘ تہہ در تہہ انکشافات

   

ہر روز نیا طور نئی برقِ تجلی
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
رافیل ‘ تہہ در تہہ انکشافات
رافیل معاملت میں مبینہ بے قاعدگیوں کا مسئلہ مسلسل طول اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ اس میں نت نئے انکشافات سامنے آتے جا رہے ہیں لیکن حکومت اس پر مسلسل ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اور وہ تحقیقات سے فرار حاصل کر رہی ہے ۔ جو الزامات اس معاملت کے تعلق سے حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم مودی پر لگائے جا رہے ہیں ان کا جواب دینے کی بجائے پارلیمنٹ میں جوابی الزامات عائد کرتے ہوئے اپنا دامن بچانے کی وزیر اعظم کوشش کر رہے ہیں۔ یہ پارلیمانی جمہوریت کی روایت کے مغائر رویہ ہے اور اس کے ذریعہ حقائق کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ذرائع ابلاغ میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ رافیل معاملت کے تعلق سے جہاں حکومت نے ایک مذاکرات ٹیم تشکیل دی تھی اس کی جانب سے جو بات چیت چل رہی تھی اس کو نظر انداز کرتے ہوئے خود دفتر وزیر اعظم نے اس پر متوازی مذاکرات کئے ۔ اپنے طور پر تفصیلات کو طئے کرلیا گیا ۔ اپنے طور پر کئی امور کو قطعیت دیدی گئی اور وزارت دفاع اور دوسرے عہدیداروں کی جو ٹیم تھی اس کو عملا نظر انداز کردیا گیا بلکہ چھٹی انگلی میں تبدیل کرتے ہوئے فرانس پہونچ کر اس تعلق سے معاہدہ بھی کرلیا گیا ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ وقت کے وزیر دفاع منوہر پریکر کو تک بھی اس سے واقف نہیں کروایا گیا ۔ جو دعوی ذرائع ابلاغ میں کیا جارہا ہے اس کے مطابق منوہر پریکر دفتر وزیر اعظم کی جانب سے ہونے والی بات چیت اور معاہدہ کی سمت پیشرفت سے بھی واقف نہیں تھے ۔ یہ شائد ہندوستان میں پہلا موقع ہے جب متعلقہ وزیر کو اور جو سرکاری ٹیم کسی کام کیلئے تشکیل دی گئی ہو اسی کو نظر انداز کرکے اس کا کام خود دفتر وزیر اعظم سے کیا گیا ہو۔کوئی معاہدہ یا معاملت جس کسی وزارت کے تحت ہوتی ہے اسی کو اس تعلق سے تفصیلات طئے کرنے اور مذاکرات کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے اور اس طریقہ کار یکسر نظر انداز کرتے ہوئے از خود ہی فیصلہ کرلیا گیا ۔ جو اطلاعات منظر عام پر آ رہی ہیں ان کے مطابق وزارت دفاع نے دفتر وزیر اعظم کی جانب سے بیجا مداخلت پر اپنے شدید رد عمل کا اظہار بھی کیا تھا ۔
جس وقت سے کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور رافیل معاملت میں اسکام کے دعوے کرنے لگے ہیں اس وقت سے اس میں ہر روز نت نئے انکشافات ہوتے جا رہے ہیں۔ طیاروں کی قیمتوں کے تعلق سے بھی حکومت کوئی جواب دینے کو تیار نہیں ہے ۔ انتہائی بھاری اضافہ کی وجہ اور دلائل پیش کرنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی مواد نہیں ہے ۔ یہ بھی وضاحت نہیں کی جا رہی ہے کہ سرکاری کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ کو اس موقع سے محروم کیوں کردیا گیا ۔ صرف چند دن قبل رجسٹر کی گئی انیل امبانی کی کمپنی پر حکومت نے اچانک ہی کیوں مہربانی کردی جبکہ انہیں جہاز سازی کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا اور ان کی کمپنی کے پاس سرمایہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا ۔ اس کے باوجود اس کمپنی کو 59 ہزار کروڑ روپئے کا کنٹراکٹ دیدیا گیا ۔ چند ماہ قبل فرانس کے سابق صدر فرینکوئی اولاند نے اس تعلق سے انکشاف کیا تھا ۔ اس وقت بھی اس کو تسلیم کرنے سے مودی حکومت نے انکار کردیا تھا ۔ جے پی سی کے ذریعہ تحقیقات کا اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن حکومت اس کو بھی تسلیم کرنے تیار نہیں ہے ۔ صرف سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ایک جائز مطالبہ کو مسترد کردینا قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ جو الزامات عائد کئے جا رہے ہیں ان کا جواب دینا حکومت کا فریضہ بنتا ہے لیکن مودی حکومت اس سے بھی فرار حاصل کر رہی ہے ۔
ہندوستان کے عوام کی اکثریت کے تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ اسے رافیل معاملت میں بدعنوانیوں کے شبہات لاحق ہیں۔ یہ معاملہ ملک کی سکیوریٹی اور دفاعی شعبہ سے متعلق ہے ۔ اس میں تفصیلات طئے کرنے کیلئے ماہرین دفاع اور متعلقہ وزارت ہی کو آگے رکھنے کی ضرورت تھی لیکن دفتر وزیر اعظم نے خاص طور پر مداخلت کی اور اپنے طور پر معاملات طئے کرلئے ۔ ایسی باتوں کا حکومت کو جواب دینا چاہئے جن کے تعلق سے سوال کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کا یہ استدلال بھی غلط ثابت ہوچکا ہے کہ فرانس کے ساتھ طئے پائے معاہدہ کے مطابق اس طیارہ کی قیمت کا افشا نہیں کیا جاسکتا ۔ حکومت کو تمام معاملات کی تحقیقات کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینی چاہئے ۔ اسی کے ذریعہ حقائق کو منظر عام پر لایا جاسکتا ہے ۔