رام مندر کی افتتاحی تقریبکانگریس کا بائیکاٹ درست

   

کپپل کومی ریڈی
ایودھیا میں 22 جنوری کو رام مندر کی افتتاحی تقریب منعقد ہورہی ہے۔ کانگریس قائدین سونیا گاندھی، ملکارجن کھرگے اور ادھیر رنجن چوہدری کو اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی لیکن کانگریس نے اسے بی جے پی کا سیاسی پراجکٹ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ یعنی کانگریس نے ایودھیا میں ہونے والی تقریب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے جس پر سنگھ پریوار اور اس کی ملحقہ تنظیمیں چراغ پا ہوگئیں اور پھر یہ کہا جانے لگا کہ کانگریس ہندو مخالف پارٹی ہے لیکن اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس نے اس تقریب میں شرکت نہ کرنے یا اس کے بائیکاٹ کا جو اعلان کیا ہے وہ درست اور حق بجانب ہے۔ کیونکہ ایودھیا میں 22 جنوری کو جو کچھ کیا جارہا ہے اس کا تعلق کسی بھی طرح شری رام سے نہیں ہے بلکہ ہندوتوا کو ریاست کے مذہب کے طور پر پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ 22 جنوری کو جو رسم ادا کی جارہی ہے وہ ایودھیا میں مقدس مندر کی تخلیق کو صحیح ثابت کرسکے یہ اس لئے درست نہیں کہ ایک اور مذہبی برادری (مسلمانوں ) کی عبادت گاہ کو انتہا پسندوں کے ہجوم نے منہدم کردیا تھا۔
ایودھیا میں ڈسمبر 1992 کو جو کچھ بھی ہوا وہ ایک وحشیانہ واقعہ تھا اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ 16 ویں صدی میں ایک ہندو مذہبی ڈھانچہ کی تباہی کو تاخیر سے ہی سہی درست کہا وہ غلطی پر ہیں۔ وہ لوگ سوچتے ہیں کہ میر باقی نے بابری مسجد اُس جگہ پر بابر کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کھڑا کیا تھا اور وہی لوگ اس بات کی تعریف کرنے کیلئے بے چین ہیں اور وہ اس لئے جمع ہورہے ہیں تاکہ مغلوں کی بربریت کو مسترد کریں لیکن ان لوگوں کا کیا ہوگا جو مذہب کو جمہوریت سے ممتاز کرنے کے معاملہ میں کافی روشن خیال ہیں اور وہ اس معاملہ میں ہزبانی طاقتوں کے سامنے سرتسلیم خم کررہے ہیں جو بڑا افسوسناک پہلو ہے۔ ایسے کئی لوگ جو ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت سے انکار کیلئے افتتاحی تقریب میں شرکت کیلئے دی گئی دعوت کو مسترد کرنے پر کانگریس قیادت کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ کانگریس لوگوں کے موڈ کی قدر کرنے میں ناکام ہوگئی۔ اس کے ذریعہ اس ( کانگریس ) نے ثابت کردیا کہ وہ ہندو اکثریت کے خلاف ہے۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کوئی مذہبی تقریب نہیں ہے، اس تقریب میں سیاستدانوں کو بڑی تعداد میں مدعو کیا گیا ہے۔ یہ دراصل ہندوستان کو ایک ہندو ریاست بنانے کیلئے سب سے نتیجہ خیز سیاسی ایجی ٹیشن کا خاتمہ ہے جس میں تمام سیاستدانوں کو ایک جائز کردار ادا کرنے کیلئے بلایا جارہا ہے۔
ایودھیا میں موجود ہونے کا مطلب رام کی عزت کرنا نہیں ہے بلکہ ہندوتوا کی تاجپوشی کو ہندوستانی ریاست کے مذہب کے طور پر تسلیم کرنا، ہندو بالادستی کے اعلان نامہ پر دستخط کرنے والا بننا اور بلالحاظ سیاسی وابستگی ایک مذہبی برادری کے ساتھ یگانگت کا مظاہرہ کرنا اور باقی سب سے انکار کرنا ہے، باالفاظ دیگر مظلومیت کا تقدس پامال کرنا ہے۔ یہ ایسا رجحان ہے اگر اس کے خلاف مزاحمت نہ کی گئی، آواز اُٹھانے سے گریز کیا گیا تو پھر خود کو تقویت پہنچانے کیلئے ہمارے ملک کو ہضم کرسکتا ہے۔ ایودھیا سے متعلق کانگریس کی قیادت کے فیصلہ سے کانگریس کی سیاسی تقدیر کے تبدیل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ پارٹی بی جے پی کو ختم کرنے والی نہیں یہاں تک کہ اگر سونیا گاندھی، صدر کانگریس ملکارجن کھرگے اور ادھیر رنجن چوہدری خود کو زعفرانی لباس میں لپیٹے ہوئے مندر میں حاضر بھی ہوجائیں تو کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ ہندوتوا طاقتیں ہر حال میں انہیں تنقید کا نشانہ بنائیں گی اور یہ کہنے سے گریز نہیں کریں گی کہ کانگریس اور کانگریس قائدین ہندو اکثریت کے مخالف ہیں ۔ لیکن اب جبکہ کانگریس نے اس تقریب کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے اس کے باعث مستقبل میں کانگریس کے دلیرانہ اقدام اور فیصلہ کی ستائش ضرور کی جائے گی۔ کانگریس نے ایک فرقہ وارانہ و متعصب ریاست کے قیام کیلئے ہتھیار نہیں ڈالے، لیکن ذرا غور کیجئے کہ اگر ایک باضابطہ طور پر فرقہ وارانہ ریاست کے قیام کیلئے باضابطہ طور پر بزدلی کے ساتھ ہتھیار ڈال دے تو اس کے بعد آنے والی نسلیں اس گھٹیا دور کا جائزہ لیتی ہیں تو وہ شائستگی سے مشابہت رکھنے والی کسی بھی چیز کیلئے خود کو پُرامید محسوس کرنے کی وجوہات تلاش کریں گی۔
کانگریس ہمارے ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت ہے، وہ سیاسی جماعت جس نے ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا، وہ چاہے تو حالات سے سمجھوتہ بھی کرلیتی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے ہندوستان کے سیکولر و جمہوری اقتدار کی حمایت کی اور انتقامی مذہبی رجحان کی فتح کا جشن منانے والے سیاسی مقابلہ کو اپنی موجودگی کے ساتھ جائز قرار دینے سے انکار کردیا۔ کانگریس نے ایک طرح سے ہندوتوا طاقتوں اور ہندوستان کو ایک ہندو ریاست بنانے کے خواہاں عناصر کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ اس کیلئے اپنے عظیم ملک اور اس کے سیکولر وجمہوری اقدار اور دستور کی بالادستی ہی سب سے اہم ہے، وہ کسی بھی طرح کسی کا مذہبی استحصال کرسکتی ہے اور نہ ہی کسی اور مذہبی برادری کے مذہبی جذبات مجروح کرسکتی ہے کیونکہ یہ عظیم ملک ہندوستان اور اس کی روح یعنی جمہوریت اور سیکولرازم ہی اس کیلئے سب سے اہم ہیں۔