راہول گاندھی کیلئے سیاسی راہ کا انتخاب ضروری

   

راج دیپ سردیسائی
راہول گاندھی فیشن ایبل ہیں جبکہ ان کی حریف بی جے پی نے ان کا کارٹون بناتے ہوئے انہیں ’’نااہل قائد‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کے کئی کانگریسی ساتھی اپنی نجی گفتگو میں انہیں عظیم قدیم سیاسی پارٹی میں بحران کی بڑھتی ہوئی گہرائی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہم کو چاہئے کہ مرکزی حکومت کے اعتراض کا جواب دیں۔ کیا راہول گاندھی کے بغیر کانگریس بہتر موقف میں ہوگی تاکہ نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی کو چیلنج کرسکے۔کانگریس حکومت کے 20 سال 2014ء سے 2019ء کے عام انتخابات میں اس کی ناکامی کا تجزیہ کیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ گاندھی خاندان کے ولی عہد، وزیراعظم کے عہدہ کیلئے مناسب ہیں یا نہیں یا پھر انتخابی مقابلہ میں انہوں نے اپنے آپ کو صدر کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا تھا۔ پانچویں نسل جو گاندھی خاندان کی ہے، مودی کے ’’نامدار۔ کامدار‘‘ قائد کی حیثیت شہرت پانے کی ذمہ دار ہے جبکہ ایک مشہور انتخابی نعرے کے بموجب کیا اب کسی مراعات یافتہ شخص کو منتخب کرسکتے ہیں جس کا امتحان خاندانی روایات کی کسوٹی پر بھی ہنوز نہیں کیا گیا۔ کیا انہوں نے چائے والے سے مقابلہ کیلئے اپنی کمر کس لی ہے؟ حالانکہ یہ چائے والا کئی سال کی جدوجہد کے بعد ملک کا وزیراعظم بن چکا ہے۔
ایک نئے نوجوان ہندوستانی کیلئے جسے ایک مثالی شخصیت کے طور پر مودی کا سفر کئی رکاوٹوں کو عبور کرنے کی کامیاب مثال ہے۔ علاوہ ازیں بی جے پی کی زہریلی انتخابی مہم میں راہول گاندھی کو ’’پپو‘‘ کہا جارہا ہے، اس کے ساتھ ہی ساتھ کئی جھوٹی باتیں، آدھے سچ اور اپنے خود ساختہ مقاصد کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں رائے دہندوں کو متاثر کرتے ہوئے کہا گیا کہ راہول گاندھی پر کئی ٹھوس اعتراضات کئے جاسکتے ہیں۔ کورونا وائرس وباء کے بارے میں بھی یہ سوالات ہوسکتے ہیں کہ ان کی شبیہ ایک تبدیل ہونے والے مزاج کے قائد کے طور پر ہوسکتی ہے جو مندر اور منڈل طاقتوں کی پشت پناہی سے منظر عام پر آگیا ہے۔ اس کے علاوہ اندرا گاندھی کے دورِ اقتدار میں جو حاکمانہ انداز حکومت پیدا ہوا تھا ، یہ کئی علاقائی قائدین کی نئی نسل کو متاثر کرنے کی وجہ بنا، پارٹی میں ان علاقائی قائدین نے آمرانہ طور طریقہ اپنا لیا لیکن ان تمام کو منظم طور پر نظرانداز کردیا گیا۔ نہرو۔ گاندھی خاندان کے بارے میں کئی اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے قیادت کے نظام کو نقصان پہنچا کر اسے کمزور کردیا۔ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو اتنا زیادہ نقصان پہنچایا، اس کی تلافی ناممکن ہوگئی ہے۔

راہول گاندھی پر الزام عائد نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ تباہ کیا ہے۔ درحقیقت یہ ڈھانچہ ان کی دادی کی غلطیوں کی وجہ سے تباہ ہوا اور ان کی ناکامیوں کا ذمہ دار راہول گاندھی کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ موجودہ دور کی کانگریس نے کبھی بھی آر ایس ایس کی طرح نظریاتی حریف کا کام یا آئس برگ کا کام نہیں کیا اور نہ اس نے نئے رائے دہندوں کو مطمئن کرنے کیلئے پرکشش نعرے تخلیق کئے جن سے پارٹی کارکن بھی پرجوش ہوسکتے تھے۔
حال ہی میں جن افراد نے کانگریس سے ترک ِ تعلق کیا ہے، حالانکہ وہ راہول گاندھی کے قریبی بااعتماد ساتھی تھے لیکن وہ راہول گاندھی کے بارے میں غلط فہمی کا شکار تھے۔ ان کے اصولوں پر پوری طرح یقین نہیں رکھتے تھے۔ کانگریس کی تہذیب یہ ہے کہ وہ طویل مدت تک اقتدار سے دور نہیں رہ سکتی جن کانگریسیوں نے پارٹی سے ترک ِ تعلق کیا ہے، وہ یا تو اقتدار حاصل کرنے کیلئے بے چین تھے یا راہول گاندھی کے اُصولوں پر ناراض تھے۔ اگر راہول گاندھی اپنی پارٹی کو مکمل طور پر جمہوری مزاج کا حامل بنانا چاہتے ہیں تو انہیں بڑے پیمانے پر کانگریس میں اصلاحات کرنی ہوں گی۔ اس کے کلچر میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنی ہوگی اور وہ اقتدار پر مرکوز سیاست کے کلچر کو تبدیل کرنا ہوگا، لیکن کانگریس کے ارکان کوئی مہاتما نہیں ہیں جو اقتدار سے دُوری کے اصول کو گلے لگا سکیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ اقتدار کی خاطر شیوسینا نے اپنے نظریاتی مخالفین کے ساتھ اتحاد کیا ہے، اس لئے کانگریس اقتدار سے دوری کو ایسا بوجھ سمجھتی ہے جس کو اُتار پھینکنا چاہتی ہیں۔ اس کے لئے وہ خود بھی کرنا چاہتی ہے۔

راہول گاندھی کی دادی اندرا گاندھی کی مثال ان کے سامنے موجود ہے، جنہیں اپنے مخالفین ’’گونگی گڑیا‘‘ کہا کرتے تھے، لیکن بعد ازاں اندرا گاندھی نے جو اقدامات کئے، اس پر ان کے مخالفین کو اپنے اس تبصرہ پر شرمندگی ہوئی۔ اگر راہول گاندھی ایک نظریہ پر سیاست میں عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اپنی ایک نئی پارٹی قائم کریں اور اس کی اپنے اصولوں کی بنیاد پر قیادت کریں۔ یہ ناممکن ہے کہ راہول گاندھی کانگریس میں بنیادی اصلاحات عمل میں لائیں۔ ان کے ساتھی کانگریسی کبھی بھی ان کے اصولوں کو قبول کرنے سے انکار کردیں گے۔ کانگریس میں رہتے ہوئے اس میں انقلابی اصلاحات کا راہول گاندھی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
پس نوشت : حال ہی میں مکل رائے نے دوبارہ ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی ہے، جب ممتا بنرجی سے ان سے غداری کرنے والے کو دوبارہ اپنی پارٹی میں شامل کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بے انتہا دلچسپ جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیاست میں کسی پر بھی ’’دروازے بند نہیں کئے جاتے‘‘۔ غالباً کانگریس کو ممتا بنرجی کے اس جواب سے سیکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ وہ عنقریب مٹھی بھر لوگوں کی پارٹی بن کر رہ جائے گی۔