راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کانگریس میں پھوٹ

   

روش کمار
آج کل دو موضوعات پر بہت زیادہ بحث ہورہی ہے ، ایک تو راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ اور دوسرے کانگریس میں پھوٹ پر بحث کا سلسلہ جاری ہے لیکن یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ آخر مذکورہ دونوں موضوعات میں سے کس موضوع پر بہت زیادہ بحث ہورہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کانگریس کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ پر ہے اور بی جے پی ،کانگریس توڑو مہم پر نکل پڑی ہے جس کا اندازہ گوا میں 8 کانگریسی ارکان اسمبلی کی بی جے پی میں شمولیت اور پنجاب میں سابق چیف منسٹر کیپٹن امریندر سنگھ کی بی جے پی میں شمولیت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ آج کے دور میں انحراف ایک باوقار سیاسی عمل بن گیا ہے۔ اس کیلئے اگر آپ بھگوان اور عوام سے کئے گئے وعدوں کو توڑ کر حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوجائیں تو آپ کا رتبہ بڑھ سکتا ہے۔ آپ کے سیاسی درجات بلند ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پھر گوا میں ’’آیا رام گیا رام‘‘ کا جو واقعہ پیش آیا، اسے پیش کیا جاسکتا ہے۔ گوا میں کانگریس کو خیرباد کہہ کر بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد چیف منسٹر انحراف کرنے والے 8 ارکان اسمبلی کے ساتھ دہلی آتے ہیں۔ دوپہر تک یہی بحث ہوتی ہے کہ ان کی ملاقات وزیراعظم سے ہونے والی ہے یا صدر بی جے پی جے پی نڈا سے گوا میں کانگریس کو توڑ کر بی جے پی نے کانگریس کو کھلا چیلنج دے دیا ہے کہ اگر ایک پارٹی کی شکل میں کانگریس ہی باقی نہیں رہے گی تو وہ ’’بھارت جوڑنے‘‘ کی سیاسی ایجنسی بننے کی دعویداری کیسے کرپائے گی۔ گوا کے ارکان اسمبلی کا دہلی آنا بتا رہا ہے کہ ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں شامل ہونے منحرف قائدین یا ارکان اسمبلی کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ کانگریس بھلے ہی اس دل بدلی کو خارج کرکے آگے بڑھنے کا اشارہ دے رہی ہو، لیکن بی جے پی آگے بڑھ کر بتا رہی ہے کہ اس کیلئے یہ دل بدلی صرف کانگریس سے بی جے پی میں آنے کا واقعہ نہیں ہے بلکہ پارٹی قیادت کو انحراف کرنے والے ارکان سے دورکرنا ہے۔ پارٹی بدلنے کی جو تاریخ رہی ہے، اس میں یہ سوال ایکدم بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا۔ بی جے پی بھی کہتی ہے کہ کانگریس سے اپنا گھر نہیں سنبھل پاتا ، دیش کیا سنبھالے گی، لیکن کیا سب کچھ اتنا معصوم طریقے سے ہورہا ہے۔ کانگریس خود ٹوٹتی جارہی ہے۔ بی جے پی کا کام صرف کانگریس سے آئے قائدین کو سمیٹنا رہ گیا ہے۔ سوال کانگریس پر بھی ہے کہ وہ ٹوٹ کو کیوں نہیں روک پاتی۔ کئی قائدین کے بارے میں میڈیا میں کئی دن سے اطلاعات گشت کرتی ہیں کہ وہ کانگریس کو خیرباد کہہ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے ہیں۔ اس کے باوجود کانگریس ان کے خلاف اپنی طرف سے کارروائی کرنے یا انہیں پارٹی سے نکال دینے کی ہمت نہیں کرپاتی۔ اس دوران بی جے پی میں جانے والے قائدین، کانگریس قیادت کو مکتوب لکھنا شروع کردیتے ہیں اور سوال اٹھانے لگتے ہیں، وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ میڈیا سے بات کرنے لگتے ہیں۔ پارٹی چھوڑنے سے پہلے ان کے سوالوں سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت میں آخری بار جی لینا چاہتے ہیں، کیا پتہ کہ وہ جس پارٹی میں جارہے ہیں، وہاں مکتوب لکھنے کی بات تو دور کاناپھوسی کی اجازت بھی نہ ملے۔ اس دل بدلی کا بھی کوئی جواب نہیں۔ 80 سالہ کیپٹن امریندر سنگھ پنجاب لوک کانگریس کے کئی قائدین کے ساتھ بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ یہ تمام قائدین کچھ ماہ قبل تک کانگریس کی تہذیب میں رچے بسے ہوئے تھے جن کی وجہ سے بی جے پی کے حساب سے 70 برسوں میں کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہی نہیں جس بی جے پی میں 75 سال عمر ہونے پر ٹکٹ نہیں دیا جاتا، وزارت چلی جاتی ہے، اس میں 80 سالہ کیپٹن امریندر سنگھ کا خیرمقدم ہوا ہے۔ بھلے یاد نہ رہا ہو مگر بی جے پی نے امریندر سنگھ کے خلاف بدعنوانی کے الزامات تو عائد کئے ہی ہوں گے۔ کیپٹن، مارگ درشک منڈل میں جائیں گے یا بی جے پی کے ذریعہ کسی اور منڈل کا حصہ بنیں گے۔ ویسے کئی دنوں سے مارگ درشک منڈل کی تشکیل جدید ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے کسی اجلاس کی خبر آئی ہے۔ گجرات کی چیف منسٹر آنندی بین نے جب استعفیٰ دیا تھا تب کہا تھا کہ وہ 75 سال کی ہونے والی ہیں لیکن 80 سال کی عمر میں حال حال تک کانگریسی رہے کیپٹن امریندر سنگھ، بی جے پی میں نئی اننگز کی شروعات کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ کیپٹن انتخابات نہیں لڑیں گے لیکن کیا وہ لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کے ساتھ مارگ درشک منڈل میں شامل کئے جائیں گے۔ بی جے پی خاندانی سیاست کے خلاف رہی ہے۔ یہاں کیپٹن امریندر سنگھ اپنے خاندان کے ساتھ بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ 3 مارچ 2018ء کو وزیراعظم نریندر مودی نے پنجاب میں ایک بیان دیا کہ کانگریس اپنے چیف منسٹر کو اپنا نہیں سمجھتی ہے، وہ آزاد سپاہی کی طرح تنہا چلے جارہے ہیں۔ اس وقت انحراف کے ذریعہ وہ سب کچھ ہورہا ہے جو ماضی میں شاید نہیں ہوا۔ آپ دعویٰ سے نہیں کہہ سکتے کہ اب سوچ و فکر میں تبدیلی کے واقعات حقیقی ہیں (بلکہ یہ زور زبردستی لالچ اور ڈر و خوف کے ذریعہ کروایا جارہا ہے) کانگریس میں اتنے سارے قائدین کئی دنوں سے کسی عظیم رہنما کے پیچھے چلنے کیلئے تڑپ رہے تھے۔ یہ اس وقت پتہ چلتا ہے جب یہ بی جے پی میں جاتے ہیں۔ بی جے پی میں کانگریس سے آئے قائدین کے بیاچ بننے والے ہیں۔ جیسے آئی اے ایس، آئی پی ایس عہدیداروں کی پہچان اس بات سے ہوتی ہے کہ وہ فلاں بیاچ سے تعلق رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ راہول گاندھی کی اتنی حیثیت تو ہے کہ ان سے بغاوت کرکے مدھیہ پردیش، اُتراکھنڈ، کرناٹک اور آسام میں کئی قائدین منسٹر سے لے کر چیف منسٹر بن گئے۔ گونا سیٹ سے جیوتر آدتیہ سندھیا کو شکست دینے والے بی جے پی رکن پارلیمنٹ کے پی یادو کبھی وزیر نہ بن سکے لیکن ان سے شکست کے باوجود جیوتر آدتیہ سندھیا کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہوئے۔ راجیہ سبھا کے رکن بنائے گئے اور اب وہ مرکزی وزیر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ گجرات کے کانگریس رکن اسمبلی جواہر چاوڈا نے استعفے دیا اور اندرون 24 گھنٹے انہیں کابینہ میں شامل کرلیا گیا۔ اسی طرح کمار سنگھ بوالیان نے کانگریس کو خیرباد کہا۔ انہیں بھی فوری طور پر روپانی حکومت میں وزیر بنا دیا گیا۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس سوال کا جواب صرف اور صرف وزیراعظم نریندر مودی ہی دے سکتے ہیں۔ صرف وزیراعظم ہی اس سوال کا جواب بھی دے سکتے ہیں کہ آپ اپنی پارٹی میں اور اپوزیشن جماعتوں میں کس طرح محنت کررہے ہیں یا آپ اپنی پارٹی سے زیادہ اپوزیشن پارٹیوں میں سخت محنت کررہے ہیں تاکہ آپ کا کوئی متبادل نہ ابھر سکے۔ یہ سیاسی کھیل اگر دیکھا جائے تو عوام کی تائید سے نہیں کھیلا جارہا ہے بلکہ اس کھیل کے ایجنسیز مختلف ہیں۔ آپ گجرات میں کانگریس سے نکل کر بی جے پی میں شامل ہونے والے کوٹوال کے رکن اسمبلی اشون کوٹوال کا یہ بیان ضرور پڑھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ شروع ہی سے ایک مودی بھگت رہے۔ اگرچہ وہ تین مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے لیکن مودی جی ہی ان کے دل میں رہے۔ 2017ء کے انتخابات کے چار سال بعد گجرات سے خبریں آرہی ہیں کہ کانگریس کمزور ہورہی ہے (کمزور کیا جارہا ہے)جس کے نتیجہ میں کانگریس ارکان اسمبلی کی تعداد 77 سے گھٹ کر 64 ہوگئی ہے۔ اگر آپ اتراکھنڈ کی صورتحال کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت کے کئی چہرے کانگریس سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ آج بھی دھامی حکومت کے 3 وزراء وہ ہیں جو کانگریس سے آئے ہیں۔ لیکن آپ اُمید کرسکتے ہیں کہ یہ مستقبل میں بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں شامل نہیں ہوں گے۔ ہمارے سامنے ہیمنتا بسوا سرما کی مثال ہے جو آسام میں کانگریس کے اہم لیڈر تھے لیکن بی جے پی میں شامل ہوکر نہ صرف چیف منسٹر بنے بلکہ اب تو راہول گاندھی کے خلاف انتہائی سخت بیانات جاری کرتے ہیں۔ ان کا مضحکہ اُڑاتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف راہول گاندھی یا کانگریس کو درپیش نہیں ہے بلکہ نتیش کمار کی پارٹی میں بھی ایسا ہوا۔ آر سی بی سنگھ نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی اور پتہ چلا کہ وہ جے ڈی یو میں بی جے پی کی ایماء پر کام کررہے تھے، لیکن انہیں نتیش کمار نے بڑی ذلت کے ساتھ پارٹی سے نکال دیا لیکن اروناچل پردیش، منی پور، دامناوردیو میں نتیش کمار کی پارٹی قائدین بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں۔