سال2014کے الیکشن میں شکست کے بعد سونیاگاندھی نے سرکاری طور پر جانکاری حاصل کرنے کے لئے مذکورہ انٹونی کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی تھی
نئی دہلی۔سلمان خورشید کا وہ بیان جس میں راہول گاندھی نے کانگریس کو لوک سبھا الیکشن میں شکست کے اسباب تلاش کرنے سے محروم کردیا ہے‘ کیونکہ انہوں نے پارٹی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے ہوسکتا ہے چیانلوں پر ”بریکنگ نیوز“ ہو
مگر کانگریس کی اعلی قائدین کا طویل عرصہ تک یہ ماننا تھا کہ گاندھی کا استعفیٰ انتخابات میں ان کی خراب حکمت عملی سے توجہہ ہٹانے کے لئے تھا‘ ورنہ اس پر زیادہ توجہہ مرکوز رہتی تھی
۔سال2014کے الیکشن میں شکست کے بعد سونیاگاندھی نے سرکاری طور پر جانکاری حاصل کرنے کے لئے مذکورہ انٹونی کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی تھی۔
پارٹی کے کئی لیڈران کا یہ ماننا ہے کہ راہول گاندھی اور ان کی ”پیشہ وارانہ“ ٹیم جنھوں نے امیدواروں کا انتخاب کیا اور پارٹی انتخابات کی حکمت عملی تیار کی‘ اجتماعی قیادت کو باہر کردیاتھا‘
ادارہ جاتی تحقیقات نہ کرواکر تکلیف دہ حقیقتوں کی بے راہ روی کو روکنے کاکام کیاہے۔
مہم کے دوران قیادت کے درمیان اس بات کو لے کر تفریق تھی جو راہول گاندھی کی ٹیم کی جانب سے بڑی حکمت عملی تیار کی ہے جو مودی دور حکومت کے خلاف اپنائی گئی تھی۔
بعض لیڈروں کا یہ احساس ہے کہ پارٹی کو کچھ اہم پہلوؤ ں کااستعمال کرنا چاہئے تھا جیسے نوٹ بندی کے بعد معاشی بحران‘ جی ایس ٹی‘ زراعی بحران‘ بے روزگاری اور سماجی کشیدگی اس میں شامل ہیں جومودی کے دور حکومت میں پیش ائے تھے۔
اس کے علاوہ رافائیل اس میں سے ایک مسلئے تھا جس کو پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق ٹیم راہول نے بوفورس کی طرح استعمال کرنے کی کوشش کی۔
تاہم کانگریس لیڈرنے دیکھا کہ مودی حکومت میں وی پی سنگھ جیسی بغاون یا خامیوں کا انکشاف نہیں تھا‘ او رنہ ہی مبینہ مالی تغلب کارائاں جو وزیراعظم کے قریبی لوگوں سے جڑے ہوں سامنے ائے۔
راہول کا ’چوکیدار چور ہے‘ کانعرہ بھی رافائیل کو انتخابات کے لئے مصالحہ دار بنانے میں کافی نہیں رہا‘ یہاں تک مودی نے بلاکوٹ پر حملے کو قومی موضوع بناکر اس کے جواب میں استعمال کیا۔
کئی لیڈران نے ’راہول بمقابلہ مودی“ لڑائی بنانے کے خلاف انتباہ بھی دیاتھا۔ مذکورہ پارٹی نے شاندار پیمانے پر ”سال2004میں واجپائی بمقابلہ سونیا‘ لڑائی کی تشکیل میں کامیابی کے ساتھ کنارہ کشی کی تھی اور اس میں این ڈی اے کے دور حکومت میں پیش ائی بدعنوانیوں کو موضوع بنایااور گجرات فسادات کی برہمی کو بھی زیربحث لانے کاکام کیاتھا۔
جس کی وجہہ سے بڑی اپوزیشن تیار بھی ہوئی تھی۔تاہم راہول کی ٹیم نے لڑائی کو ”راہول بمقابلہ مودی“ بنانے پر زوردیا تاکہ وزیراعظم کا موقع مل سکے۔
راہول برانڈ تیار کرنے پر تمام تر توجہہ نے اتحاد میں خامیاں پیدا کی جو بہار‘ کرناٹک‘ جھارکھنڈ‘ او رمہارشٹرا میں تھی۔
ڈی ایم کے کی زیر قیادت تاملناڈو ہی تھا جہا ں پر اتحاد کامیاب رہا۔ لوک سبھا الیکشن چند ماہ قبل راجستھان‘ چھتیس گڑ او رمدھیہ پردیش کے الیکشن میں جیت حاصل کرنے کے باوجود‘
راہول گاندھی کی ’نیائے یوجنا‘ مودی کے جلوے پر اثرانداز نہ ہوسکے۔
نوجوت سنگھ سدھو اور سیم پتروڈا جیسے اسٹار مہم چلانے والوں نے بی جے پی کو تنازعات تحفہ میں دیا۔