رمضان تو گزر گیا، لیکن اب…؟

   

پروفیسر اختر الواسع
اللہ کی خصوصی رحمت اور خیر و برکت کا مہینہ رمضان رخصت ہوگیا۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہو ںنے اس کی قدر پہچانی اور اس کے انوار و تجلیات سے اپنی زندگی کے شب وروز کو منور کرنے کی کوشش کی۔ رمضان ہر سال اسی طرح نیکی و پاکیزگی کے حصول اور معصیت سے خلاصی کا سامان لے کر آتاہے اور عقل و احساس رکھنے والوں کو دعوت دیتاہے کہ وہ خدا کے حضور سراطاعت خم کر کے اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرلیں کہ دراصل تمام تر کامیابیوں کی شاہ کلید یہی ہے۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں، اس رمضان کی حسرت میں جن کی آنکھیں پہلے ہی بند ہوگئیں اور کتنے ہی ایسے ہیں جنہیں نیکیوں کی بہار کایہ موسم دوبارہ نصیب نہیں ہوگا۔ ایسے میں ہم میں سے ہر ایک کو خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ اس نے اس رمضان کے موقعہ پر اپنے ایمان کو کتنا تروتازہ اور اعمال صالحہ کے ذخیرے میں کتنا اضافہ کیا؟ بعض صوفیہ کرام سے منقول ہے کہ ان کا وتیرہ تھا کہ وہ روزانہ سونے سے پہلے اپنا محاسبہ کرتے اور اس بات کا جائزہ لیتے تھے کہ انہوںنے دن بھر میں کتنے خیرو ثواب کے اور کتنے برائی اور عقاب و عذاب کے کام کیے۔ پھر وہ اچھے کاموں پر خدا کا شکر اور برے کاموں پر خدا کے حضور میںتوبہ و استغفار کرتے تھے اور دوبارہ اس برائی میںمشغول نہ ہونے کا اپنے آپ سے عہد کرتے تھے۔
صالحین کے اس طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے رمضان کے مابعد ایام میں ہمیں بھی رمضان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی کوشش کرنی چاہے اور اچھے کام کی توفیق پر خدا کا شکر اور بے توفیقی پر خدا سے معافی کا خواستگار ہونا چاہے۔ حضرت عمرؓ کا بامعنی قول ہے کہ حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبواکہ تم اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے تمہارا محاسبہ کیا جائے۔ خود احتسابی ہی انسان کی وہ صفت ہے جو انسان کو ماضی کی غلطیوں پر ندامت و پشیمانی کے ساتھ آئندہ کے لیے احتیاط اور ہوش مندی کی روش اختیار کرنے پر مائل کرتی ہے۔

خود احتسابی کے حوالے سے ہمیں اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ رمضان کے ایام میں صیام و قیام کا جو فریضہ ہم نے ادا کیا اور جو عبادت و ریاضت ہم نے انجام دی وہ خدا کے حضور میں قبولیت سے سرفراز ہوئی بھی یا نہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ عبادت کی قبولیت کی سب سے اہم علامت یہ ہے کہ اس عبادت میں متعلقہ شخص کو لطف و لذت حاصل ہونے لگے جس طرح کسی بھی لطیف ولذیذ چیزسے ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ دوسرے اعمال صالحہ کی طرف رغبت ہو ، نیز وہ ان پر مداومت اختیار کرنے والا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل وہ ہے جو مسلسل ہو ، چاہے وہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔ ایک مرحلے میں سنن و مستحبات کو بھی دانتوں سے پکڑنا اور دوسرے مرحلے میں فرائض و واجبات کی ادائیگی سے بھی شانے اچکا کر آگے بڑھ جانا مومن کی شان نہیں ۔ بلکہ حقیقت میںیہ اپنے ایمان اور مومن ہونے کا مذاق اڑانا ہے۔
قرآن میں تقویٰ کے حصول کو روزے کا اصل مقصد بتایا گیاہے۔ چناں چہ اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’اے مومنو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کیے گئے تھے۔ تاکہ تمہارے اندر تقوی کی صفت پیدا ہوسکے۔‘‘(ابقرہ) تقویٰ کیا ہے؟ حضرت عمرؓ نے صحابی رسول حضرت کعبؓ سے یہ سوال کیا تو انہوںنے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اے امیر المؤمنین کیا آپ کا کبھی کسی خاردار راستے سے گزرہوا ہے؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ ہاں ضرور گزرا ہوں۔ حضرت کعب نے پوچھا کہ تب آپ نے کیا کیا؟ حضرت عمر نے کہا کہ میں نے اپنے دامن کو اوپر اٹھا کر نہایت احتیاط سے قدم زمین پر رکھتے ہوئے آگے بڑھ گیا کہ مبادا کانٹے ہمارے کپڑوں اور دامن سے الجھ نہ جائیں۔ حضرت کعب نے فرمایا کہ دراصل تقویٰ یہی ہے۔

اس لیے اب جب کہ رمضان کے ایام گزر چکے۔ ہمارے لیے ایک نئی آزمائش کا مرحلہ سامنے ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہماری شب و رو ز کی زندگی پر روزے کے کس حد تک خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہماری طبیعت کس حد تک خیر کی طرف راغب اور شر سے اجتناب پر آمادہ ہے ؟ حقیقت میں روزے کا عمل روزہ دار بندوں کی طرف سے خدا کے ساتھ کیا جانے والا یہ عہد ہے کہ ہم اس نہج پر اپنی زندگی گزاریںگے جس کا ہم نے رمضان میں تجربہ کیا تھا۔ سوائے اس کے کہ ہمیں کھانے پینے اور اس جیسی دیگر رخصتوں سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہوگا۔ حدیث میں روزہ کو مومن کے لیے ڈھال سے تشبیہ دی گئی ہے۔ وہ مومنین صالحین کو گناہوں سے بچاتا ہے۔ اگر اس کایہ اثر سامنے نہیں آتا یا محض وقتی طور پر سامنے آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کا روزہ ہمارے لیے ایک رسم اور عادت کا حصہ تھا نہ کہ عبادت کا۔
رمضان کے بنیادی اعمال میں روزے کے علاوہ قیام لیل، تلاوت و تدبر قرآن، صدقات و عطیات کے ذریعہ غربا و مساکین کی دست گیری اور ان کے ساتھ مواسات و غم خواری وغیرہ شامل ہیں۔ بقیہ گیارہ مہینوں میں بھی ان اعمال کی ادائیگی کے مواقع ہمیں ملے ہوئے ہیں ۔ ہمیں اس کی ترغیب دی گئی ہے اور ان کے بجا لانے پر انعام و اکرام کا وعدہ کیا گیاہے۔ چناں چہ شوال کے چھ روزے اور عاشورا کے روزے کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ قرآن کی تلاوت اور اس میں تدبر پورے سال کاعمل ہے۔ قرآن کا ہم سے یہ مطالبہ ہے کہ ہم اس میں غور و فکر کریں۔ چناں چہ قرآن کہتاہے: ’’لوگ قرآن کی آیات میں غور و فکر نہیں کرتے، کیا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔‘‘ تلاوت قرآن کے متعلق عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:’’ جس کسی نے قرآن کے ایک حرف کو پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور یہ نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔ میں نہیں کہتا کہ ’’الم‘‘ ایک حر ف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے ،لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے‘‘۔ (ترمذی)سائلین کے متعلق قرآن میںہے۔’’ ان لوگوں کے مالوں میں سائلین و محرومین کا ایک حق مقرر ہے جو روز جزا کو برحق مانتے ہیں او راپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں‘‘۔ (المعارج:۲۶)

رمضان میں خدا کی طرف سے روزہ دار کو دی جانے والی تربیت میں ایک اساسی چیز اپنی خواہشات پر کنٹرول رکھنا ہے۔ دنیا میں فساد و خلفشار کی جو صورت حال ہے اور جس کی وجہ سے یہ دنیا تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑی ہے، اس میں سب سے زیادہ دخل انسان کی بے لگام خواہشات کو ہے۔ خدا کی طرف سے رسول اللہﷺکے ذریعہ زمین پر نازل کی جانے والی شریعت وہ نمونہ عمل فراہم کرتی ہے جس سے انسان خواہشات کی بندگی سے خود کو نکال کر خدا کی بندگی کا خود کو پابند کرسکے۔ مابعد رمضان کے مرحلے میں ہر اس شخص کو جس نے رمضان میں روزے کا اہتمام کیا تھا، اپنے نفس کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کس حد تک اس پر قابو رکھتاہے۔اس طرح رمضان کی جوروح صبراور لوگوں کے ساتھ مواسات کی شکل میں سامنے آتی ہے اس کا مطالبہ پورے سال ہے کہ انسان اللہ سے اجر کی امید پر ناخوش گوار باتوں پرصبرکرے۔ ہماری اجتماعی زندگی میں تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن پراگرہم صبرنہ کریںتو ہمار ی زندگی ہم پربوجھ بن کررہ جائے۔
رمضان کے بعد اس کی اسپرٹ کواپنی شب وروز کی زندگی میں برقراررکھنا ہمارا سب سے بڑا فریضہ اور سب سے بڑی آزمائش ہے۔رسول اللہ کی حدیث ہے کہ:اللہ تعالی کی دو نعمتوں کے تعلق سے بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں:ایک صحت مندی اور دوسرے فارغ اوقات۔ یہ ایک بالکل تجربے کی بات ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگوں کو ان دونوں نعمتوں کی قدر اسی وقت ہوتی ہے جب ہم سے یہ نعمتیں چھن جاتی ہیں خود ہماری اپنے کوتاہی عمل سے یا کسی فطری سبب سے۔
مابعد رمضان کے طویل مرحلے کے آغاز میں ہی ہمیں اس بات کا عزم مصمم کرلینا چاہیے کہ ہم اپنی آئندہ کی زندگی اس اسپرٹ اور اس عہد کے ساتھ گزاریں گے جو ہم نے رمضان کے ابتدائی دنوں میں رمضان کے تعلق سے کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ آزمائش کے اس طویل مرحلے میں ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہمیں نیکی اور حق کے راستے پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرمائے۔ (آمین)