رمی جمار بدی کی طاقتوں سے نفرت کا اظہار

   

…سلسلہ گزشتہ سے پیوستہ …
اس واقعہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محسوس فرمایا کہ اس قوم میں قبول حق کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے ۔ انھوں نے ترکِ وطن کا ارادہ فرمالیا اور منزل کے تعین کے بغیر ہی وطن کو خیرباد کہہ دیاکہ میرا رب مجھے جہاں لے جائے گا چلا جاؤں گا ۔ پہلے مصر گئے تو فرعون مصر کی صورت میں اک اور آزمائش سے گذرنا پڑا ۔اس کے بعد شام پہنچے تو شام کا سرسبز و شاداب علاقہ پسند آیا، وہیں قیام کیا۔ اب عمر شریف ۸۵ سال کی ہوچکی ہے ۔عہد پیری میں قدم رکھ چکے ہیں اور اب تک اولاد سے محروم ہیں ۔ پیمانۂ صبر لبریز ہوچکا تھا ، دعا کے لئے ہاتھ اُٹھ گئے ، عرض کیا : اے میرے پروردگار مجھے صالح اولاد عطا فرما۔(سورۃ الصافات ۳۷:۱۰۰)
لیکن پھر اک سخت آزمائش سے دوچار ہوگئے ۔ حضرت سارہ کو سوتن کو صاحب اولاد ہوتے دیکھنا گوارا نہ ہوا ۔ حاملہ بیوی حضرت ہاجرہ کو لے کر نکل گئے ۔ ارض حجاز پہنچے جو ایک وادی غیرذی زرع تھی ۔ بے آب و گیاہ تپتا ہوا صحر ا ، جلے ہوئے پہاڑ ، اسباب حیات تو کیا ملتے ، آثار حیات کا دور دور تک نام و نشان نہیں، دعا نے شرف قبول حاصل کی ۔ ۸۶ برس کی عمر میں حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی ولادت ہوئی ۔ حکم ہوا اب اس بچہ اور بیوی کو یہیں چھوڑکر واپس جاؤ ۔ اسمعٰیل علیہ السلام وہیں پل کر سیانے ہوئے ۔اس عرصہ میں ضرور آتے جاتے رہے ۔ اسمعٰیل علیہ السلام جب باپ کے دست و بازو بننے کے قابل ہوگئے ۔ باپ کے ساتھ ہلکا پھلکا کام کاج کرنے لگے ، ابراہیم علیہ السلام کا شجر تمنا بارآور ہونے لگا، تو ایک اور سخت ترین آزمائش سامنے آگئی ۔

اولاد کی یہ عمر وہ ہوتی ہے جس میں باپ کو اپنے بچے سے اک خاص فطری محبت پیدا ہوجاتی ہے ۔اس عمر میں بیٹا حقیقی معنی میں باپ ـکی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دستِ قدرت سے جو قلب ملا تھا وہ ’’قلب سلیم‘‘ تھا۔ قلب سلیم وہ ہوتا ہے جو صرف اﷲ کی محبت کے لئے مخصوص ہوتا ہے اس میں غیراﷲ کی محبت کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ لیکن اب صورتحال یہ تھی کہ بیٹے کی محبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں داخل ہوا چاہتی تھی ۔
محبت کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ محبت سب کچھ گوارا کرسکتی ہے لیکن شرکت اسے کسی صورت منظور نہیں ، وہ رقیب کو کبھی برداشت نہیں کرسکتی ، جب انسانی محبت کا یہ حال ہے تو محبت الٰہی کے کیا کہنے ، وہ کیسے شرکت گوارا کرلے گی ۔
اﷲ تعالیٰ نے اسی لئے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے ۔ فرمایا : شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان ۳۱:۱۳) اﷲ تعالیٰ ہر گناہ جسے چاہے معاف کردیتا ہے ، لیکن ’شرک‘ ایسا گناہ ہے جو کسی بھی حال میں معاف نہیں کیا جائے گا ۔ اﷲ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات ذاتیہ میں شرکت برداشت نہیں کرتا ، اس نے صاف صاف اعلان فرمادیا ہے ۔ بے شک اﷲ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرایا جائے، اس کے سوا جتنے گناہ ہیں ، جس کو چاہتا ہے معاف کردیتا ہے ۔ اﷲ کے ساتھ جس نے کسی کو شریک ٹھہرایا ، اس نے بہت بڑا بہتان باندھ دیا جو بڑا زبردست گناہ ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام کے قلب سلیم میں بیٹے کی محبت گھسنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا ۔ بس یہی وقت تھا کہ انھیں اپنے پیارے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ملتا ہے ۔
نبی کا خواب بھی وحی کے برابر ہوتا ہے ۔ خواب کے اشارے سے وہ سمجھ گئے کہ اﷲ تعالیٰ کا منشا یہی ہے ۔چنانچہ وہ اپنا خواب بیٹے سے بیان کرکے اس کی رائے معلوم کرتے ہیں:
’’ پھر جب وہ لڑکا والد کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انھوں نے کہا : بیٹے ! میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں ، اب تم سوچ کر بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے کہا : اباآپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے ۔ ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم لوگوں میں پائیں گے‘‘ ۔ (سورۃ الصافات ۳۷:۱۰۲)
چنانچہ اسمعٰیل علیہ السلام انتہائی سعادت و نجابت کے ساتھ امر الٰہی کے سامنے تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بارگاہِ خداوندی میں اپنی قربانی پیش کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں اور ابراہیم علیہ السلام ان کو لے کر قربان گاہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔
شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے ۔ وہ کب گوارا کرسکتا تھا کہ یہ دونوں باپ بیٹے اس آزمائش سے گزرکر زندۂ جاوید ہوجائیں وہ راستے کا پتھر بن گیا۔ ابراہیم علیہ السلام کو روکنے کی کوشش میں لگ گیا۔ ان کے دل میں وسوسہ اندازی کی کوششیں شروع کردیں۔ اُس رسوائے زمانہ نے وسوسہ کچھ اس طرح کا ڈالا ہوگا : خلیل اﷲ ! بیٹے کو ذبح کرنے جارہے ہو ، ہوش کے ناخن لو ، اﷲ کو راضی کرنے اور رکھنے کے اور بھی طریقے ہیں ، بیٹے ہی کو ذبح کرنا کیا ضروری ہے سو (۱۰۰) برس کی عمر گزارنے کے بعد اب تمہارا شجر آرزو بارآور ہوا ہے ۔ اگر بیٹے کو ذبح کردو گے تو کل تمہارا کوئی نام لینے والا تک نہ ہوگا ۔ شیطان بھول گیا کہ آج اس کا واسطہ کسی معمولی انسان سے نہیں خلیلِ بُت شکن سے ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ بھلا شیطان کی اس وسوسہ اندازی کو کیا برداشت کرتے ۔ انھوں نے پتھر اُٹھاکر بدبخت کو دے مارا ۔ شیطان نے تین مرتبہ اپنی سی کوشش کرلی ۔ ناکام بھی ہوا اور سنگسار بھی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنگ باری اور شیطان کی سنگساری اتنی معنی خیز تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو مناسک حج میں شامل کرکے بقائے دوام بخش دیا۔ آج حجاج جو رمی جمار کرتے ہیں ، اسی کی یادگار ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ شیطان سے نفرت پیدا ہو، اس سے نفرت کا جذبہ اُبھرے ، شیطان کی نافرمانی اور اس سے بغاوت کا جذبہ پیدا ہو لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جہلاء نے رمی جمار کو تفریحی مشغلہ بنالیاہے ۔ کنکریوں کے بجائے کوئی پتھر پھینکتا ہے ، کوئی جوتا پھینکتا ہے ، کوئی چپل پھینک رہا ہے ۔ غرض رمی جمار کو ایک کھیل بنایا ہوا ہے ۔ انہیں رتی برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ رمی جمار شیطان اور بدی کی طاقتوں سے نفرت کا اظہار ہے ، تفریحی مشغلہ نہیں ہے ۔ شیطان کو کنکریاں ماری جارہی ہیں اور اک شیطان خود ان کے اندر چھپا بیٹھا ہے جو ان سے یہ مضحکہ خیز حرکتیں کرارہا ہے ۔ اسی لئے میں کہتا ہوں دین کافہم نصیب نہ ہو تو ہر امر دینی کی روح فنا ہوجاتی ہے ۔ صورت باقی رہ جاتی ہے اور حقیقت مفقود ہوجاتی ہے ۔ اس طرح جو فائدہ اس امر دینی سے ہونا چاہئے نہیں ہوتا ۔ اﷲ ہم سب کو دین کا فہم عطا فرمائے ۔ آمین … جاری ہے