روایتوں کی صفیں توڑ کر بڑھو ورنہ

   

حق کیلئے جدوجہد … حکومت کے ہوش اڑ گئے
کسان جاگ گئے … مسلمان ابھی نیند میں

رشیدالدین
عزم اور حوصلہ کے ساتھ مقصد کے حصول کا جنون ہو تو انسان اپنی منزل کو پاکر ہی دم لیتا ہے۔ کامیابی کیلئے تعداد کی نہیں بلکہ سرفروشی کا جذبہ رکھنے والے مٹھی پر جیالوںکی ضرورت ہے ۔ کسی بھی تحریک یا مہم کی کامیابی کیلئے اخلاص اور جذبۂ قربانی ضروری ہے اور جب اس جذبہ کے ساتھ کوئی آگے بڑھتا ہے تو نہ صرف منزل قدم چومتی ہے بلکہ اقتدار وقت کو جھکنا پڑتا ہے۔ ملک کے کسانوں نے احتجاج کے ذریعہ دہلی کے ایوانوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ پنجاب ، ہریانہ اور دیگر ریاستوں سے لاکھوں کی تعداد میں کسانوں نے دارالحکومت دہلی کی طرف مارچ کرتے ہوئے حکومت کے ہوش اڑادیئے اور کسانوں کو دنیا کے مختلف حصوں سے تائید حاصل ہونے لگی۔ کسان کے نام کے ساتھ ہی ایک غریب اور بھولے بھالے شخص کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جو اپنی محنت سے زمین کا سینہ چیر کر اناج اگاتا ہے جس سے دنیا کی بھوک مٹائی جاتی ہے۔ زمین سے اناج اگانے والا جب اپنے حق کیلئے ڈٹ جائے تو حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ کا آنا فطری ہے۔ کسانوں نے چکہ جام کے ذریعہ نریندر مودی حکومت کو عملاً مفلوج کردیا ہے ۔ مرکز کے مخالف کسان قوانین کے لئے سینکڑوں میل کا فاصلہ طئے کر کے دہلی کی سرحد پر کھلے آسمان کے نیچے خیمہ زن ہیں اور قوانین سے دستبرداری کے علاوہ کسی متبادل پر سمجھوتہ کرنے تیار نہیں ۔ کسانوں کے اتحاد اور جذبہ قربانی کو سلام کہ انہوں نے ملک کے مظلوم اور دبے کچلے طبقات کو نئی روشنی دکھائی ہے۔ ایسا نہیں کہ کسانوں کی قیادت اور رہنمائی سیاسی طاقتیں کر رہی ہوں۔ انہوں نے مقصد کے حصول کی جدوجہد کو سیاسی آلودگی سے پاک رکھا اور یہ ثابت کردیا کہ جذبہ ہو تو منزل مقصود استقبال کرتی ہے۔ حقوق کے لئے جدوجہد اور احتجاج ہر شہری کا دستوری حق ہے اور جمہوریت میں عوام کے جذبات کا احترام کیا جاتا ہے۔ کسانوں نے اپنے مسائل کیلئے سڑکوں پر نکل کر یہ ثابت کردیا کہ وہ حکومت کو جھکانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اپنے حقوق کے لئے ملک کا کسان جاگ گیا لیکن ملک کی دوسری بڑی اکثریت مسلمان سویا ہوا ہے۔ گزشتہ کئی دہوں سے مظالم اور ناانصافی کے باوجود خواب غفلت سے بیدار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ آخر کب تک بے حسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں گے۔ کم سے کم کسانوں سے سبق لینا چاہئے کہ حقوق اور ناانصافیوں کے خاتمہ کیلئے جدوجہد کیسے کی جاتی ہے۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے باوجود گزشتہ 70 برسوں سے پسماندگی کو اپنا مقدر بناچکے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ پسماندگی کے معاملہ میں وہ دلتوں سے بھی آگے ہیں۔ ظلم اور ناانصافیوں پر بے حسی اور جمود کی کیفیت اپنی انتہا پر ہے اور اگر اب بھی کسانوں سے سبق نہ لیں تو وہ دن دور نہیں جب ملک میں دوسرے درجہ کے شہری بن کر رہنا پڑے گا اورحکومت کی مہربانی اور احسان پر اکتفا کرنا پڑے گا ۔ کسانوں کے اتحاد اور احتجاج کے جذبہ کو دیکھنے کے بعد مسلمانوں کی حالت زار پر دل تڑپ اٹھتا ہے ۔ دو ریاستوں کے کسان جب حکومت کے ایوانوں کو ہلا سکتے ہیں تو 30 کروڑ مسلمان اپنے حق کے لئے اس طرح کا جذبہ کیوں نہیں دکھا سکتے۔ 2014 ء میں مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد مسلمانوں سے ایک ایک چیز چھینی جارہی ہے ۔ شریعت پر حملے اور مذہبی تشخص ختم کرنے کی سازش رچی گئی ۔ شریعت میں مداخلت ، ایودھیا میں مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر ، گاؤ رکھشا اور لو جہاد کے نام پر ہلاکتیں ، ہجومی تشدد ، ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو تقسیم کر کے ہندو اکثریتی ریاست میں تبدیل کرنے کیلئے دفعہ 370 کی برخواستگی ، سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے نام پر مسلمانوں کی شہریت مشکوک کرنے کی تیاری ہے تاکہ رائے دہی کے حق سے محروم کردیا جائے۔ سنگھ پریوار اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کا آئندہ قدم یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ہے جس کے بعد ملک کو ہندو راشٹر قرار دینے کی راہ ہموار ہوجائے گی ۔ کسانوں نے آواز اٹھائی تو سارے ملک میں ہلچل پیدا ہوگئی لیکن مسلمانوں کی آواز اہمیت اور وقعت کھوچکی ہے ۔ اس کی ایک نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں۔ مسلمانوں کی قیادت کے دعویداروں نے اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہوئے مسلمانوں کو بے آسرا کردیا ۔

مسلمانوں میں سیاسی اور مذہبی قیادت باقی نہیں رہی ۔ رہنمائی کرنے والا کوئی مخلص اور دیانتدار خوف خدا کا جذبہ رکھنے والا قائد نہیں ہے ۔ سیاسی ہو کہ مذہبی شخص ان میں عمومی طور پر درباری ہوچکے ہیں اور ان کا شمار گنبد اقتدار کے کبوتروں میں ہونے لگا ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد سے مولانا ابوالحسن ندوی (علی میاں) تک مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے موجود تھے ۔ علی میاں کے بعد قیادت کا خلاء پیدا ہوچکا ہے اور مفادات حاصلہ کا غلبہ ہے۔ قوم کی رہنمائی کیلئے قیادت میں کردار کا ہونا ضروری ہے اور اگر کردار گروی رہے تو تقاریر اور وعظ بے اثر ہوجائیں گے ۔ کسانوں کے نمائندوں نے حکومت سے مذاکرات کے دوران کردار کا غیر معمولی مظاہرہ کیا ۔ بات چیت کے دوران جب لنچ کا وقت آگیا تو کسانوں کے نمائندوں نے حکومت کا کھانا چکھنے سے انکار کردیا اور کہا کہ کسان کھلے آسمان کے نیچے جو کھانا کھا رہے ہیں ، وہ اپنے ساتھ لائے ہیں۔ انہوں نے سرکاری کھانے کو چھوا تک نہیں بلکہ جس طرح کھیت میں نیچے بیٹھ کر کھاتے ہیں ، اسی طرح اپنے ساتھ لائی ہوئی غذا کو نوش کیا ۔ مقصد کا حصول اور ساتھیوں کی تکلیف کا احساس کا اس سے بہتر مظاہرہ اور کیا ہوسکتا ہے ۔ برخلاف اس کے مسلم مذہبی اور سیاسی رہنما حکومتوں کے ایوانوں میں مرغن غذاؤں کے ساتھ لنچ اور ڈنر کے عادی ہوچکے ہیں۔ حیدرآباد میں مساجد کی شہادت جیسے حساس مسئلہ پر نمائندگی کے دوران چیف منسٹر کے ساتھ لذیذ غذاؤں پر مشتمل لنچ کیا گیا۔ جس حلق کے نیچے سرکاری کھانا اتر جائے اس حلق سے حکومت کے خلاف آواز کیسے نکل پائے گی ؟ قیادت کے لئے درکار اسلامی کردار کو کسانوں کے نمائندوں نے اختیار کیا جبکہ ہم اسلامی تعلیمات سے دور ہوگئے ۔

کسانوں کو اعتراض اس بات پر ہے کہ مرکزی حکومت نے کارپوریٹ کمپنیوں کو زرعی شعبہ میں داخل کرتے ہوئے کسانوں کی فصلوں پر اختیارات حوالے کرلئے ۔ حکومت کے فیصلہ سے کسان اپنی پیداوار کیلئے اقل ترین امدادی قیمت سے محروم ہوسکتے ہیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔ اقل ترین امدادی قیمت کیلئے لاکھوں کسان سڑکوں پر نکل آئے لیکن افسوس کہ شریعت کے تحفظ کے لئے مسلمانوں کو جمہوری انداز میں احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی ۔ 30 کروڑ مسلمان اگر کچھ دیر کیلئے سہی سڑکوں پر نکل آئے تو سارے ہندوستان میں ٹریفک بند ہوجائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج وہ قیادت کہاں ہے جس کی ایک آواز پر مسلمان گھروں سے نکل پڑے۔ قیادتوں پر عوام کا اعتماد ختم ہوچکا ہے ۔ کیرالا میں مسلم لیگ جب تک اقتدار میں رہی سرگرم تھی لیکن اقتدار سے محرومی کے بعد گوشۂ گمنامی میں چلی گئی ۔ محمد اسماعیل ، ابراہیم سلیمان سیٹھ اور بنات والا جیسے قائدین کے نام آج بھی زندہ ہیں لیکن مسلم لیگ کے موجودہ ارکان پارلیمنٹ کے ناموں سے خود مسلمان واقف نہیں ۔ بنگال میں بدرالدجیٰ اور کشمیر میں عبدالغنی ڈار نے مسلمانوں کی کامیاب قیادت کی تھی ۔ نئی نسل سے اگر 4 مسلم ارکان پارلیمنٹ کے نام پوچھیں تو وہ بتانے کے موقف میں نہیں ہے۔ قیادتوں کی ناکامی کے نتیجہ میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والے جہد کاروں بالخصوص اسٹوڈنٹ لیڈرس کو چن چن کر سنگین مقدمات میں پھنسایا جارہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ دہلی فسادات کیلئے جہد کاروں اور طلبہ قائدین کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ موجودہ صدر کی علالت کے بعد مفلوج ہوچکا ہے ۔ جمیعت العلماء 2 گروپ میں تقسیم ہوچکی ہے۔ مسلمان قیادتوں کے دعویداروں میں نفسا نفسی کا غلبہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا مذہب ، مشرب اور مسلک صرف کھانا ، پینا اور سونا بن چکا ہے ۔ ہر کسی کو اسلام اور مسلمانوں سے زیادہ اپنی اور اپنے بچوںکی فکر ہے۔ مسلم قیادت کو ہندوستان میں کسانوں سے سبق لینا ہوگا اور ہر شعبہ میں غلبہ اسلام کیلئے کام کرنے کا جذبہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
روایتوں کی صفیں توڑ کر بڑھو ورنہ
جو تم سے آگے ہیں وہ راستہ نہیں دیں گے