ریلوے میں ملازمتیں ، وزیر اعظم کی وعدہ خلافی، سنجے سنگھ سے حکومت پریشان

   

روش کمار
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کے متعدد وعدے کئے لیکن ان وعدوں کو دس سال کے دوران پورا نہیں کیا گیا۔خاص طور پر نریندر مودی نے اپنی پہلی میعاد میں ہی ملک کے بیروزگار نوجوانوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومت ہر سال 2 کروڑ نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرے گی لیکن افسوس کہ پچھلے دس برسوں میں دس لاکھ بیروزگاروں کو بھی ملازمتیں فراہم نہیں کی گئیں۔ بہر حال ریاست بہار کے جموئی علاقہ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ریلوے بھرتی کا ذکر کردیا، اپنے دس سال کی میعاد میں کئے گئے کاموں کا تو انہوں نے حساب نہیں دیا لیکن لالو پرساد یادو کے دور حکومت میں پیش آئے گھوٹالہ کی بات کرکے وہ اس کی خانہ پُری کرگئے۔ ریلوے بھرتی ایک ایسا موضوع ہے جس پر نوجوان کچھ ٹھوس سننا چاہتے ہیں۔ دس سال میں ریلوے میں کتنی نوکریاں دی گئیں ، کتنی بھرتیاں آئیں اور آنے والے وقت میں بھرتیوں کا مستقبل کیا ہوگا، یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے لیکر اپوزیشن نے کافی محنت کی اور ہر وقت اسے اولین ترجیحات میں رکھا۔ پارلیمنٹ میں سوال پوچھ کر اعداد و شمار نکالے تو کئی ساری پریس کانفرنسوں کا بھی اہتمام کیا۔ مودی حکومت میں ریلوے کی بحالی کو لیکر کئی بڑی تحریکیں چلائی گئیں لیکن ان سب رکاوٹوں کو ڈھکیلتے ہوئے وزیر اعظم 2004 سے 2009 کے درمیان لالو یادو کے دور حکومت میں بھرتیوں سے متعلق گھوٹالے کی بات کرنے میں لگ گئے۔ کیا واقعی وزیر اعظم نریندر مودی ریلوے کی بھرتیوں کو لیکر نوجوانوں کے بیچ سنجیدہ بحث کرنا چاہتے ہیں۔ لالو پرساد یادو کے دور کی یاد دلاتے ہوئے انہیں یاد نہیں رہا کہ ان کے دس سالہ دور حکومت میں نوجوانوں کو ریلوے کی بھرتیوں سے کیا ملا ؟ بھرتی گھوٹالہ کی بات کررہے ہیں کیا وزیر اعظم کو پتہ نہیں کہ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان کے دس برسوں میں بھی بند نہیں ہوئی۔ ابھی حال ہی میں یو پی میں پولیس بھرتی امتحان منسوخ کرنا پڑا جس کے لئے 50 لاکھ امیدواروں نے درخواستیں دی تھیں۔ ہم ریلوے بھرتی کی ہی بات کرتے ہیں، بہار کے نوجوان ریلوے کی بھرتی پر کچھ زیادہ سننا چاہتے ہوں اور مرکز کا ریکارڈ دیکھنا چاہتے ہوں گے کہ مودی سرکار کا ریکارڈ یو پی اے کی حکومت سے کتنا بہتر ہے ۔ وزیر اعظم مودی کو شائد یہ یاد نہیں رہا ہوگا کہ اس سال پٹنہ میں ریلوے میں بھرتیوں کو لیکر احتجاج ہوا، بہت سے امیدوار سڑک پر اُتر آئے اور اسسٹنٹ لوکو پائیلٹ کی بھرتی کی تعداد بڑھانے کی مانگ کرنے لگے۔ ریلوے ٹریننگ اسٹاف اسوسی ایشن نے بھی ریلوے بورڈ کو مکتوب لکھا کہ ریل ملازمین کی مخلوعہ جائیدادیں 16323 ہیں مگر اشتہار صرف 5696 مخلوعہ جائیدادوں کا ہی نکلا۔ امیدوار اسے لیکر احتجاج کرنے لگے۔ مودی کی حکومت میں اس طرح کے کئی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں اور جب بھی ہوئے ہیں تب وزیر اعظم کی طرف سے کوئی بھی ٹھوس تیقن یا بیان منظرِ عام پر نہیں آیا۔ دس سال میں مودی حکومت میں ریلوے میں کتنی بھرتیاں ہوئیں اس کا ریکارڈ تو وزیر اعظم کے پاس ہوگا ، ہونا بھی چاہئے تو کیوں نہیں بھاجپا اس کی تشہیر کرتی ہے، کیوں نہیں بتاتی کہ مودی کے د ور میں زیادہ نوکریاں دی گئیں۔ جموئی ریالی سے پہلے تیجسوی یادو نے ٹوئیٹ کرکے پوچھا بھی تھا کہ اُمید ہے کہ وزیر اعظم بتائیں گے کہ جموئی کے کتنے نوجوانوں کو دس برسوں میں روزگار ملا ہے، مگر وزیر اعظم نریندر مودی‘ نتیش بابو اور لالو یادو کے دور حکومت کا ذکر کرکے نکل گئے۔ ایک دو سطروں میں کسی گھوٹالہ کی بات کرکے نکل جانے کا کوئی مطلب نہیں۔ نوکری پر بات کرنی ہے تو ٹھیک سے کیجئے۔ ابھی 2 اپریل کو کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے ٹوئیٹ کیا تھا اور ریلوے سے جڑے سات سوال وزیر اعظم نریندر مودی سے کئے تھے۔ یہاں سوال نوکری کو لے کر ہی تھا۔ کھرگے نے پوچھا کہ ابھی تک ریلوے میں تین لاکھ مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتیاں کیوں نہیں ہوئی ہیں، کیا بی جے پی ان ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور معاشی طور پر کمزور ای ڈبلیو ایس لوگوں کے خلاف ہے جو بھارت کے سب سے بڑے پبلک سیکٹر شعبہ میں تحفظات کا فائدہ اُٹھانے سے قاصر رہے۔ قاعدہ سے وزیر اعظم یا وزیر ریلوے کو دس سال کا پورا ڈیٹا دینا چاہیئے۔ یو پی اے کے دور میں کتنی بھرتیاں نکلیں اور مودی حکومت میں کتنی بھرتیاں نکلیں اور اس کی حکومت میں امیدواروں ؍ نوجوانوں نے کتنے احتجاجی مظاہرے کئے۔ مودی حکومت نے خود پارلیمنٹ میں بتایا ہے کہ 2014 سے 2022 کے درمیان ریلوے نے تین لاکھ پچاس ہزار دو سو چار لوگوں کو ہی ملازمتیں دی ہیں۔ وزیر ریلوے اشو ویشنو کا یہ راجیہ سبھا میں دیا گیا جواب ہے۔ یہ تو ریکارڈ ہے ریلوے بھرتی کا۔ یہ اس محکمہ کا حال ہے جو ملک میں سب سے زیادہ نوکریاں دینے والا مانا جاتا ہے۔ اس ادارہ نے مودی حکومت کے 8 سال میں صرف ساڑھے تین لاکھ نوکریاں دیں۔ یہ خبر یاد کیجئے ذرا 2017 کی ہے اس وقت پیوش گوئل وزیر ریلوے تھے اور انہوں نے ورلڈ اِکنامک فورم میں بیان دے دیا کہ ریلوے کے ماحولیاتی نظام میں ایک سال میں دس لاکھ نوکریاں دی جاسکتی ہیں۔ گوئل اب ریلوے کے وزیر نہیں ہیں مگر ایک سال میں دس لاکھ نوکریاں دینے کے ان کے وعدے یا حساب کا کیا ہوا پتہ نہیں۔ سُرخی اس وقت شائع ہوگئی اور شائع ہوکر کھوگئی۔ وزیر اعظم کو قاعدہ سے ان ہی سے پوچھ کر بتانا چاہیئے کہ کس ماحولیاتی نظام سے اور کس حساب سے انہوں نے بتایا تھا کہ ریلوے کے ایکو سسٹم سے دس لاکھ نوکریاں ایک سال میں دی جاسکتی ہیں تو کتنی دی گئی ہوں گی؟ پوچھئے تو ! آپ بھی پوچھئے مودی حکومت کے کس سال میں ایک سال کے اندر دس لاکھ نوکریوں کے مواقع پیدا ہوئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اپنا ریکارڈ نہیں بتائے انہیں پتہ ہے کہ بہار کا نوجوان رلوے کی نوکریوں کے بارے میں کچھ سننا چاہتا ہے۔ لالو پرساد یادو کے دور کے گھوٹالہ کا ذکر وزیر اعظم کرنے لگے۔ ہم نے جنوری میں موجودہ وزیر ریلوے کے ایک بیان کے بارے میں بتایا تھا، اس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے دیڑھ لاکھ نوکریاں دینے کا کام کیا ہے۔ ایک اور وزیر ریلوے دس لاکھ کی بات کرکے چلے گئے، ایک وزیر ریلوے دیڑھ لاکھ نوکریاں دینے کی بات کررہے ہیں۔ میڈیا میں ریلوے کے ایک زونل منیجر نے بیان دیا، انیل کمار کھنڈیلوال کا یہ بیان ہے ، وہ کہہ رہے ہیں کہ ریلوے لوکو پائلٹ کی ہزاروں جائیدادیں مخلوعہ ہیں ایسا نہیں ہے۔ کھنڈیلوال نے تب جنوری میں یہ بھی کہا تھا کہ پہلے ریلوے تین یا چار سال میں جائیدادیں نکالا کرتی تھی، اب ہر سال جائیدادیں نکالتی ہے۔ تین چار سال پہلے بھی تو حکومت مودی کی ہی تھی، جنوری میں پٹنہ میں امیدوار ناراض تھے کہ 6 سال بعد اسسٹنٹ لوکو پائلٹ کی بھرتی نکالی ہے لیکن سیٹس کم ہوگئی ہیں۔ وقت بہ وقت ریلوے میں بھرتیوں کو لیکر اپوزیشن نے شاندار ذمہ داری نبھائی۔ پارلیمنٹ میں سوال پوچھ کر مخلوعہ جائیدادوں کی تعداد کو منظرِ عام پر لایا۔ حکومت پر بھرتیوں کیلئے دباؤ بنایا۔ سی پی ایم کے رکن راجیہ سبھا جان اور مسلم لیگ کے رکن عبدالوہاب نے ریلوے میں بھرتیوں کو لیکر کئی سوال کئے۔ راجیہ سبھا میں بی جے پی رکن سشیل مودی نے بھی مخلوعہ جائیداوں پر بھرتیوں کو لیکر سوال کیا ہے۔ رکن راجیہ سبھا جان پرکاش نے 11 اگسٹ2023 کو وزیر ریلوے سے سوال کیا کہ ملک بھر میں ریلوے میں کُل مخلوعہ جائیدادوں کی تعداد کتنی ہے، اس کے جواب میں وزیر موصوف جانکاری دیتے ہیں کہ 11 اگسٹ 2023 میں راجیہ سبھا کا یہ جواب ہے کہ ریلوے کی الگ الگ اکائیوں میں 18848 جائیدادیں مخلوعہ ہیں ان میں سے 2680 عہدے خالی ہیں یعنی 14 فیصد سے زیادہ عہدے مخلوعہ ہیں۔ جملہ 14 لاکھ 63 ہزار جائیدادوں میں سے 2 لاکھ 61 ہزار سے زیادہ عہدے مخلوعہ ہیں۔ تقریباً 18 فیصد عہدے خالی ہیں۔ اسی طرح 11 اگسٹ 2023 کو انڈین یونین مسلم لیگ کے رکن راجیہ سبھا عبدالوہاب سوال کرتے ہیں کہ دو برسوں کے دوران انڈین ریلوے میں کتنی بھرتیاں کی گئیں اور علاقائی سطح پر کتنی مخلوعہ جائیدادیں ہیں، اس کے جواب میں وزیر ریلوے بتاتے ہیں کہ یکم اپریل 2021 کو 293 لاکھ سے زائد جائیدادیں مخلوعہ تھیں ۔ یکم اپریل 2022 کو تین لاکھ سے زائد جائیدادیں مخلوعہ تھیں اور یکم جولائی 2023 کو مخلوعہ جائیدادوں کی تعداد 263 لاکھ سے زائد تھی۔ یکم اپریل 2024 سے 30 جون 2023 تک 9 برسوں کی مدت میں 4 لاکھ 86 ہزار 34 امیدواروں کو پیانل میں شامل کیا گیا ہے۔
مودی حکومت میں اپوزیشن لیڈروں کو جیل جاتے دیکھا گیا ہے لیکن جس طرح سے سنجے سنگھ تہاڑ جیل سے نکلے اور پارٹی کارکنوں سے خطاب کیا ویسا کم دیکھا گیا ۔ عام آدمی پارٹی نے بھی سنجے سنگھ کی رہائی کو ایک بڑے سیاسی پروگرام میں تبدیل کردیا ۔ سپریم کورٹ میں جب ضمانت ملی تب کچھ صحافی خبریں پلانٹ کرنے لگے کہ عدالت نے ضمانت کیوں دی، یہ کسی کا ماسٹر اسٹروک ہے وہی جو اس طرح کے پھٹیچر ماسٹر اسٹروکس کیلئے جانے جاتے ہیں۔ لیکن جیل سے باہر آتے ہی سنجے سنگھ نے اسے اپنے اور اپنی پارٹی کیلئے ماسٹر اسٹروک میں بدل دیا۔ اس محفل میں سنجے سنگھ کی تصویریں پہنچنے لگی اور دیر رات سب کچھ سنجے سنگھ کا ہوگیا۔ سنجے سنگھ اپنی بات ملک کے تانا شاہ کو پہنچانے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تمہاری کسی بندر بھپکی سے ڈرنے والے نہیں ہیں، تم ہندوستان کی سب سے بہترین حکومت اروند کجریوال کی حکومت کو گرانا چاہتے ہو، توڑنا چاہتے ہو، ہمارے ارکان اسمبلی کو ڈرنا چاہتے ہو، آتشیی کو گرفتار کروگے، سوربھ بھردواج کو گرفتار کروگے، درگیش پاٹھک ، رگھو چڈھا کو گرفتار کروگے، ہمارے ارکان اسمبلی کے گھروں پر چھاپے ماروگے، انکم ٹیکس کا چھاپہ گلاب سنگھ پر تانا شاہی مچارکھی ہے اس ملک میں۔ میں کہنا چاہتا ہوں 6 مہینے جیل میں رہ کرآیا ہوں‘ نریندر مودی جی کان کھول کر سن لو عام آدمی پارٹی کا ایک ، ایک رکن‘ ایک، ایک لیڈر، ایک ‘ ایک منسٹر اور ایم ایل اے اپنے لیڈر اروند کجریوال کے ساتھ کھڑا ہے۔
آخرسنجے سنگھ کے خطاب میں ایسا کیا تھا جس میں عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کو ایک نیا جوش و ولولہ حاصل ہوا۔ عام آدمی پارٹی لیڈروں کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ وہ پُرجوش انداز میں مودی حکومت کے تابڑتوڑ حملوں کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے ای ڈی کے دھاوؤں سے لیکر چیف منسٹر اروند کجریوال اور ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا کی گرفتاری کو لیکر ہر واقعہ کو نہ صرف سوشل میڈیا کے ذریعہ عام کیا بلکہ پریس کانفرنسوں سے خطاب بھی کیا۔ کجریوال کی گرفتاری کے بعد رام لیلا میدان پر زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا اور اپوزیشن کا اتنا بڑا جلسہ کافی عرصہ بعد دیکھا گیا۔21 مارچ سے 30 اپریل کے درمیان ایک ‘ ایک پل عاپ کی کی لڑائی کا سلسلہ بڑی شدت سے جاری رہا۔ تہاڑ کے باہر بھی سنجے سنگھ کا خیرمقدم کرنے کیلئے ان کے حامی پہنچ گئے۔ رہائی کا وقت شام دیر گئے آیا۔ شیر ہے بھائی شیر ہے،سنجے بھیا شیر ہے، جیل کے تالے ٹوٹ گئے سنجے بھیا چھوٹ گئے ‘ کے نعرے بلند کئے۔ بہر حال ایک ایسے وقت جبکہ بے شمار سیاستداں ای ڈی کے ڈر سے بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں ‘ سنجے سنگھ جیسے لیڈر مودی کو چیلنج کررہے ہیں اور یہ سب کچھ عوام کی تائید و حمایت کی بنیاد پر ہورہا ہے۔