رینوراج باروا ، شیشانک مئواپوزیشن 2024ء کیکیا تیاریاں کررہی ہے؟

   

حالیہ عرصہ کے دوران بی جے پی نے اُترپردیش اور گجرات میں اپنا اقتدار برقرار رکھا۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی سے آگے بھی اپنے پر پھیلاکر پنجاب میں حکومت قائم کرلی۔ دوسری طرف کے سی آر اور نتیش کمار اپوزیشن اتحاد کی باتیں کررہے ہیں جبکہ کانگریس ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے ذریعہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جاریہ سال اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے لیکن اس سال تمام سیاسی جماعتوں نے 2024ء کے عام انتخابات کیلئے خود کو تیار کرنا شروع کردیا اور اس ضمن میں وہ مختلف چالیں چل رہی ہیں۔ جہاں تک انتخابی سیاست کا سوال ہے، نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی مسلسل اپنی برتری برقرار رکھے ہوئے ہیں، اگرچہ اسے پنجاب اور ہماچل پردیش جیسی ریاستوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ دہلی بلدیہ میں بھی وہ اقتدار سے ہاتھ دھوبیٹھی لیکن مودی۔ امیت شاہ جوڑی کے جوش میں کوئی کمی نہیں آئی جہاں تک پنجاب اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی ناکامی کا سوال ہے، مارچ میں ہوئے ان انتخابات میں بی جے بی کی شکست بلکہ ہتک کسانوں کے زبردست احتجاج کے نتیجہ میں ہوئی۔ کسانوں کے احتجاج کا فائدہ کانگریس حاصل کرنے سے قاصر رہی جبکہ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی نے اس احتجاج کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور ریاست میں کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کردیا۔ پنجاب میں کانگریس کو دراصل اس کے اپنے قائدین اور ان کے داخلی اختلافات نے شکست سے دوچار کیا۔ جاریہ سال کے ختم تک کانگریس کو ہماچل پردیش میں کامیابی کی شکل میں کسی حد تک راحت ملی ہے حالانکہ وہ گجرات میں تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ گجرات کے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے 77 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ سال 2022ء سیاسی لحاظ سے بطور خاص مہاراشٹرا کی سیاست کیلئے بڑا ہیجان انگیز رہا۔ جہاں 2019ء کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس ۔ شیوسینا اور این سی پی نے غیرمتوقع طور پر مخلوط حکومت قائم کی تھی لیکن ماہ جون میں شیوسینا میں بغاوت کروائی گئی اور اس بغاوت کیلئے شیوسینا نے بی جے پی کو ذمہ دار قرار دیا۔ 10 روز تک ایک سیاسی ڈرامہ جاری رہا اور شیوسینا میں پھوٹ پڑگئی۔ ادھو ٹھاکرے کو مہا وکاس اگھاڑی کے چیف منسٹر کی حیثیت سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا اور بی جے پی اس مغربی ریاست میں اقتدار پر واپس آگئی۔ اس نے شیوسینا سے علیحدہ ہوئے گروپ کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنالی اور شیوسینا کے باغی لیڈر ایکناتھ شنڈے کو عہدہ چیف منسٹری اور سابق چیف منسٹر دیویندر فڈنویس کو ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کردیا جبکہ حقیقی شیوسینا کون ہے، اس مسئلہ پر سپریم کورٹ میں قانونی جنگ جاری ہے۔ ماہ اگست میں ہمارے ملک نے ایک اور زبردست سیاسی تبدیلی کا مشاہدہ کیا۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے بی جے پی سے ناطہ توڑ کر لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی سے دوبارہ رشتہ قائم کرلیا۔ اس طرح بہار میں این ڈی اے (قومی جمہوری محاذ) کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ اب وہاں نتیش کمار، تیجسوی یادو کے ساتھ مل کر حکومت کررہے ہیں۔ نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد ختم کرکے مرکز میں مودی حکومت کو بیدخل کرنے اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ دوسری طرف چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ نے اپنی پارٹی ’’ٹی آر ایس‘‘ کا نام تبدیل کرکے ’’بی آر ایس‘‘ (بھارت راشٹرا سمیتی) رکھا ہے اور اسے قومی پارٹی بنالیا ہے۔ انہوں نے ایک قومی پارٹی کے صدر کی حیثیت سے وزیراعظم نریندر مودی پر تنقیدی حملوں میں شدت پیدا کردی ہے۔ ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں پر متحد ہونے کیلئے بھی زور دیا ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں کے ایسے کئی قائدین ہیں جو عہدۂ وزارت عظمی پر فائز ہونے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کے اس خواب کے نتیجہ میں اپوزیشن متحد ہی نہیں ہو پارہی ہے۔ ماہر سماجیات اور سیاسی مبصر پروفیسر آنند کمار کا اس بارے میں خیال ہے کہ ملک میں عجیب و غریب سیاسی حالات ہے۔ اپوزیشن جماعتیں خود کا احیاء اور خود کو طاقتور بنانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئی ہیں۔ کانگریس ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے ذریعہ بی جے پی سے مقابلہ کی تیاریاں شروع کرچکی ہے۔ کے سی آر اور نتیش کمار بھی موقع بہ موقع قومی سیاست میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں مصروف ہیں۔