ریونت ریڈی بالآخر چیف منسٹر بن گئے

   

روش کمار
ریاست تلنگانہ میں انتخابی مہم کے دوران یہی کیا جارہا تھا کہ کانگریس مستحکم ہوئی ہے اور عوام میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور اس مرتبہ کانگریس کو اقتدار مل سکتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران جو سروے اور ایگزٹ پولس آئے ان میں زیادہ تر سروے اور اگزٹ پولس میں کانگریس کو اقتدار ملنے کی پیش قیاسیاں کی گئیں تھیں۔ چنانچہ ویسا ہی ہوا اور تلنگانہ کے تیسرے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو اقتدار مل ہی گیا اور تلنگانہ میں اے ریونت ریڈی نے عہدہ چیف منسٹر کا حلف لے لیا ان کے ساتھ بھٹی وکرامارکا ڈپٹی چیف منسٹر بنائے گئے ہیں وہ دلت طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور متحدہ آندھراپردیش میں بھی ڈپٹی چیف منسٹر رہ چکے ہیں۔ چیف منسٹر کے علاوہ دس وزراء کو بھی آج حلف دلایا گیا تین ریاستوں میں شکست کے درمیان حیدرآباد میں تقریب حلف برداری کی تیاریاں بتارہی تھی کہ یہ ریاست کانگریس کیلئے کتنی اہم ہوگئی ہے ۔ حیدرآباد کے لال بہادر اسٹڈیم میں تقریب حلف برداری منعقد ہوئی جس میں صدر کل ہند کانگریس کمیٹی ملک ارجن کھرگے، سونیا گاندھی، راہول گاندھی اور کانگریس کے کئی بڑے رہنما شامل ہوئے۔ کرناٹک کے چیف منسٹر سدارامیا اور ڈپٹی چیف منسٹر ڈی کے شیو کمار بھی شامل ہوئے۔ دوسری طرف مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھیتس گڑھ میں بی جے پی پرانے چہروں کی بجائے نئے چہروں کو متعارف کرواتے ہوئے انہیں چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کرنا چاہتی ہے۔ نتائج جاری ہوئے ایک ہفتہ ہونے کو ہے ابھی تک ان ریاستوں میں لیجسلیچر پارٹی کے اجلاس کی خبر نہیں آئی ہے ابھی تک چیف منسٹروں کے نام کا پتہ نہیں مگر بی جے پی کی جب بھی بات ہوتی ہے تب میڈیا بتاتا ہے کہ کتنا سوچ سمجھ کر فیصلہ لیا جاتا ہے اس کے برعکس کانگریس نے چیف منسٹروں کے ناموں کا اعلان کرنے میں اتنی تاخیر کی ہوتی تو میڈیا اسے ناکارہ ثابت کرنے کیلئے ایک سے ایک لفظ کہیں سے تلاش کر لاتا فی الحال کیلئے کہا جاسکتا کہ 3 ڈسمبر کو نتائج آگئے اور اتنے دن ہوگئے چھیتس گڑھ ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں چیف منسٹروں کے ناموں کا اعلان نہیں ہوا ہے ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی نے کسی کو بھی عہدہ چیف منسٹری کے امیدوار کے طور پر پیش نہیں کیا تھا ۔ رمن سنگھ 3 مرتبہ چیف منسٹر رہ چکے ہیں ۔ شیوراج سنگھ چوہان بھی چار مرتبہ عہدہ چیف منسٹر پر فائز ہوچکے ہیں ۔ 3 ڈسمبر کے دن میڈیا شیوراج سنگھ چوہان کو ہیرو بتارہا تھا لیکن اب وہی میڈیا اس ہیرو کو لیکر چپ ہوگیا ۔ 3 ڈسمبر کا جوش و جذبہ اتنے دنوں میں سرد پڑچکا ہے۔ میڈیا میں چھائے رہنے والے شیوراج سنگھ چوہان کو لیکر خبریں خاموش ہوچکی ہیں۔ شیوراج سنگھ چوہان نے کامیابی کے بعد اپنے بے شمار ویڈیوز ٹوئٹر موجودہ ایکس پر پوسٹ کئے ہیں ان ویڈیوز میں شیوراج سنگھ چوہان عجیب موڈ میں نظر آتے ہیں ان کا اندر فاتح کا لگتا ہے نادعویدار کا بلکہ ہر طرح کی دعویداروں سے دور نظر آرہے ہیں ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شیوراج سنگھ چوہان کو اندازہ ہوگیا ہے کہ لاڈلی بہنوں کے ماما چیف منسٹر بن رہے ہیں اسے لیکر کہیں کوئی دعویداری نظر نہیں آرہی ہے عہدہ چلائے جائے اسی لئے ابھی سے اس عہدہ سے دور نظر آرہے ہیں جو انہیں اس کامیابی کا حقدار بناتی ہے ۔ شیوراج سنگھ چوہان موجودہ صورتحال کی نہیں 2024 کی بات کرنے لگے ہیں ۔ مدھیہ پردیش میں تیسری بار شاندار جیت دلاکر شیوراج سنگھ چوہان کو عہدہ چھوڑنا پڑے گا ، معاف کرنا اس جملہ سے پہلے سوالیہ طو رپر ’’ کہا ‘‘ لگانا بھول گیا ۔ کیا شیوراج سنگھ چوہان کو عہدہ چیف منسٹری چھوڑنا پڑے گا ؟ شیوراج سنگھ چوہان نے کہا ہیکہ وہ اس عہدہ کی دوڑ میں نہیں ہے اسلئے دہلی نہیں گئے ۔ کیا دہلی اسی لئے جایا جاتا ہے اپنے لیڈر سے اظہار تشکر کرنے ان سے ہم آہنگی اور ان کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرنے وہ دہلی جاسکتے ہیں ۔ وزیراعظم نریندر مودی اور چوہان کی تصویر ایک ساتھ ہی آجاتی ۔ اتنی تاخیر کیوں ہورہی ہے ؟ شائد بڑا کام ہے ؟ چیف منسٹر کا انتخاب کرنا ہے تاخیر ہوسکتی ہے تب ہی تو چوہان کو شنڈواڑہ جانے کا وقت ملا جہاں بی جے پی کو ساتوں نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ، انتخابات جیت کر بھی شیوراج سنگھ چوہان کہیں حکومت مخالف لہر کا شکار تو نہیں ہوگئے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پارٹی میں ان کے خلاف بھیانک حکومت مخالف لہر چل رہی ہے ۔ ادھر دہلی میں بی جے پی پارلیمانی کمیٹی کے جلاس میں وزیراعظم نریندر مودی سے جیت کا شکریہ ادا کردیا گیا مگر بھوپال میں ارکان اسمبلی کے اجلاس کا پتہ نہیں ۔ نو منتخب ارکان اسمبلی چار مرتبہ کے چیف منسٹر کا شکریہ ادا کرسکیں ۔ اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے ارکان پارلیمنٹ مودی کے ساتھ تصاویر کھینچوا رہے ہیں مگر چوہان تصویر میں نہیں ہیں کیا انہیں اپنے لیڈر ( مودی ) سے ملکر اظہار تشکر کرنے کیلئے دہلی میں نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ وزیراعظم کے ساتھ فوٹو میں نہیں آنا چاہئے تھا ؟ شیوراج دہلی نہیں جارہے ہیں یا دہلی نے ان سے دوری اختیار کرلی ہے ۔ نریندر سنگھ تومر مرکزی وزیر ہیں ان کے بیٹے کا ویڈیو انتخابی مہم کے دوران وائرل ہوا لیکن انہوں نے پارلیمنٹ سے استعفے دے دیا ہے کیا اقتدار کی کرسی ان کی طرف جاتی نظرآ رہی ہے ، جیوتیر آدتیہ سندھیا نے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا اور نہ ہی استعفے دیا ہے راجستھان میں بھی گہری خاموشی ہے دو مرتبہ عہدہ وزارت عظمی پر فائز رہ چکی وسندھراراجے سندھیا کو لیکر خبریں خاموش ہیں اس وقت ملک میں ممتا بنرجی ہی واحد خاتون چیف منسٹر ہیں کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ وسندھرا کا پتہ کٹ جائے اور کسی اور ریاست میں خاتون چیف منسٹر بن جائیں ۔ راجستھان میں رواج بدلنے جارہا ہے ۔ اشوک گہیلوٹ انتخابات جیت کر روایت بدلنا چاہتے تھے مگر اب رواج و روایت بدلنے کی کنجی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے پاس چلی گئی ہے ۔ راجستھان میں 1998 سے اشوک گہیلوٹ اور وسندھرار اپنے باری باری سے چیف منسٹر بنتے رہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وسندھراراج کو موقع نہ دے کر اور انہیں بائی بائی کہکر بی جے پی رواج اور روایت بدلنے جارہی ہے ۔ آپ مہاراشٹرا بھی دیکھ لیجئے وہاں چیف منسٹر رہے دیویند فڈنویس ڈپٹی چیف منسٹر کے طو رپر کام کررہے ہیں ۔ وسندھرا بی جے پی اور سنگھ کیلئے جیت کا چہرہ نہیں ہے جب جیت کا چہرہ نہیں ہے تب عہدہ چیف منسٹری کا چہرہ کیا ہوں گی نئے چیف منسٹر کے نام کا اعلان ہونے میں جتنی دیر ہوگی وسندھرا کیلئے سپنس بنے گا مگر اس تاخیر کے بعد بھی ان کو ہی چیف منسٹر بنایا جاتا ہے تو ان کی سیاسی طاقت کی داد دینی پڑے گی ۔ پارٹی میں سسٹم اس تلوار کا نام ہے جس سے اچھے بھلے درختوں کو گھاس کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے اور گھاس کو درخت بنادیا جاتا ہے سسٹم کے نام پر چپ چاپ اپنی گردن کٹانی پڑتی ہے کسی کی انا کیلئے اپنا موقف اپنا عہدہ چھوڑنا پڑتا ہے یہ وہ محاورہ ہے جو شیوراج سنگھ چوہان اور وسندھرا راجے دونوں پر پوری طرح سچ ثابت ہوتا ہے مگر ہمارا ارادہ ایسا نہیں ہے ۔ مجھے یہ خاموشی پسند آرہی ہے جو 3 ڈسمبر سے اپنا ڈیرہ جمائی ہوئی ہے ۔ بی جے پی جب عہدہ چیف منسٹری کیلئے تین ناموں کا اعلان کرے گی تب پتہ چلے گا کہ ساست میں سب کچھ جیت کے دن ختم نہیں ہوجاتا اس کا پہیہ آگے کی طرف بڑھ جاتا ہے ۔ جیتے ہوئے خیمہ میں بھی کئی لوگوں کو ہار کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حاشیہ پر جانا پڑتا ہے یہی سیاست کا کمال ہے ۔ کانگریس میں ریونت ریڈی کو حاشیہ پر بھیجنے کی سیاست کی خبروں کو پڑھتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ جو مرکز میں آتا دکھائی دیتا ہے وہی حاشیہ پر چلا جاتا ہے اور جو حاشیہ پر ڈھکیلا جاتا ہے وہ مرکز میں آجاتا ہے ۔ ریونت ریڈی کو کنارہ کرنے کی کوشش کرنے والے آج مایوس ہوں گے ۔ راہول گاندھی ، مانک راو ٹھاکرے اور سنیل گولو نے جس ریونت ریڈی پر داؤ کھیلا انہوں نے ثابت کردیا کہ گھوڑا صحیح تھا ۔ 54 سال کے ریونت ریڈی اگر دو حلقوں سے انتخاب نہیں لڑتے تو عہدہ چیف منسٹری کا حلف نہ لیتے ۔ کاماریڈی حلقہ سے کے سی آر کے خلاف میدان میں اُتر پڑے مگر وہاں شکست کھاگئے ۔ کے سی آر بھی ہار گئے ان دونوں کو بی جے پی کے کے وی رمنا ریڈی نے ہرایا ۔ ریونت ریڈی نے کوڑنگل اسمبلی حلقہ سے بی آر ایس کے پی نریندر ریڈی کو ہرایا ہے ۔ اسی سیٹ نے ریونت ریڈی کی قسمت بدل دی تھی ۔ 2018 میں وہ بی آر ایس کے نریندر ریڈی سے ہار گئے اور بعد میں عام انتخابات میں ملکاجگیری کامیابی حاصل کر کے پارلیمنٹ پہنچ گئے ۔ دہلی جاتے ہی کانگریس کی مرکزی قیادت کی نظروں میں آئے اور راہول گاندھی نے انہیں تلنگانہ پردیش کانگریس کا صدر بنادیا ۔ ہارتے جیتے 7 ڈسمبر کو انومولا ریونت ریڈی نے تلنگانہ کے دوسرے چیف منسٹر کی حیثیت سے اپنے عہدہ کا حلف لیا ۔ وہ تلنگانہ میں کانگریس کے پہلے چیف منسٹر ہیں ان کی سیاسی زندگی 17 سال کی ہے کبھی کسی وزارت میں نہیں رہے سیدھے عہدہ چیف منسٹری کا حلف لیا ۔ دی ہندو اخبار میں آر روی کانت ریڈی نے لکھا ہیکہ ریونت ریڈی کے کیریئر کی شروعات اے بی وی پی سے ہوئی مگر وہ کبھی بی جے پی کے رکن نہیں رہے ۔ آر ایس ایس کی تلگو میگزین جاگروتی میں کام کرتے رہے ۔ آر ایس ایس نے ابھی تک یہ دعوی نہیں کیا ہیکہ ہمارا ایک سوئم سیوک چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز ہوا ہے ۔ اسد الدین اویسی کی پارٹی ان پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ سنگھ کے ہیں ۔ بی آر ایس حملہ کرتی ہے کہ وہ پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔ ضلع پریشد کا انتخاب جیتا پھر ایم ایل سی پھر رکن پارلیمنٹ پھر رکن اسمبلی بننے ، محبوب نگر میں جب ضلع پریشد کے انتخابات میں کانگریس کے طاقتور امیدوار کو ہرا دیا تب سب کی نظروں میں آئے۔ آندھراپردیش کے چیف منسٹر جگن موہن ریڈی کے والد ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھرریڈی ، ریونت کو کانگریس میں لانا چاہتے تھے لیکن ریونت چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم میں چلے گئے ۔ تلنگانہ کی جب تشکیل ہوئی تو کانگریس میں آگئے ۔ ریونت ریڈی دو مرتبہ ٹی ڈی پی کے رکن اسمبلی رہے ہیں اور ایک مرتبہ کانگریس کے رکن اسمبلی منتخب ہوئے سیاسی قائدین کی سیاسی زندگی پیچیدگیوں اور رومانس سے بھری ہوں ۔ سبھی کا نہیں بہت سارے تو انتخابات جیت کر بھی زندگی بھر بھجن گاتے رہتے ہیں کچھ نہیں کر پاتے مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جن میں اقتدار حاصل کرنے کا جذبہ موجزن رہنا ہے ۔ ریونت ریڈی کی کہانی تیزی سے چڑھتے اور مقام پر پہنچے کے راستے میں سب سے بھڑجانے کی کہانی رہی ہے جس جوش کے ساتھ جارحانہ انداز میں انہوں نے انتخابی مہم چلائی کئی مقامات پر لکھا گیا کہ کانگریس کی جیت کے پیچھے یہ وجہ رہی کہ ریونت ریڈی نے خود کو جھونک دیا شائد ریونت ریڈی کی صلاحیتوں کو کے سی آر ٹھیک سے پہچانتے تھے چنانچہ 2018 میں کے سی آر نے انہیں اسمبلی انتخابات میں ہرانے پوری طاقت جھونک دی لیکن چار ماہ بعد ریونت ریڈی ملکاجگیری سے انتخابات جیت کر دہلی پہنچ جاتے ہیں اور کانگریس میں اپنی جگہ بنالیتے ہیں۔