سال 2020 اور بی جے پی

   

سال 2020 مرکز کی بی جے پی حکومت کا سال کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔ اس سال ہندوستانی عوام کے لیے ہر زاویہ سے مصیبتوں کا سال تھا ۔ لیکن مودی حکومت کے لیے اہم تھا ۔ کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے میں ناکامی کے باوجود اس حکومت نے دلیرانہ طور پر کئی ایسے کام کیے ہیں جن سے ہندوستانیوں کی معاشی کمر ٹوٹ گئی ۔ اس سال مودی حکومت نے کئی فیصلے بھی کئے ۔ آرٹیکل 370 کی برخاستگی اور شہریت ترمیمی قانون نافذ کرنے کی کوششیں ، پنجاب اور ہریانہ میں کسانوں کا احتجاج ، اترپردیش سمیت کئی ریاستوں میں لو جہاد کے نام پر کالے قوانین منظور کئے گئے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کا کنول کا پھول عام انتخابات کے بعد سے مزید کھل رہا ہے ۔ تلنگانہ میں بھی یہ کنول کھل چکا ہے ۔ خود بی جے پی کو اندازہ ہے کہ اس سال نے اسے کس قدر فائدہ پہونچایا ہے ۔ گذشتہ سال کے مقابل سال 2020 میں بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں مودی حکومت کی پالیسیوں کو سختی سے روبہ عمل لایا گیا ۔ ساری دنیا میں ویسے سال 2020 کو ہمیشہ ایک خطرناک وبا کورونا سے یاد کیا جائے گا لیکن ہندوستان میں کورونا کے ساتھ ساتھ بی جے پی حکومت کی زیادتیوں کو بھی یاد رکھا جائے گا ۔ لاک ڈاؤن کے دوران مودی حکومت کے اقدامات سے سارا ہندوستان پریشان تھا ۔ خاص کر مزدور طبقہ کی زندگی تہس نہس ہوگئی ۔ لاک ڈاؤن کے باعث معاشی تباہی کے باوجود بی جے پی کو بہار کے اسمبلی انتخابات میں کوئی ضرب نہیں پہونچائی گئی ۔ اپوزیشن کو ایک طرف کورونا وائرس نے لے ڈوبا ہے تو دوسری طرف نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی نے اپوزیشن کی ساکھ کمزور کردی ہے ۔ کانگریس اپنی قیادت کو ترس رہی ہے ۔ ایک مقامی اور متحرک قیادت کی تلاش میں کانگریس نے اپنے قیام کے 135 سال مکمل کرلیے ۔ ہر طرف سے ناکامیوں کا سامنا ہے ۔ عوام بھی ایک کمزور اپوزیشن کی وجہ سے حکمراں طاقتوں کو جھیل رہے ہیں ۔ بی جے پی کی سیاست سے ہندوستان کی جمہوریت تو کمزور ہوچکی ہے ۔ دستور کی بھی دھجیاں اڑائی جاچکی ہیں ۔

اس ملک کے کئی دانشور طبقے سابق آفیسرس ، انڈین اڈمنسٹریشن سرویس کے ریٹائرڈ وزراء نے مودی حکومت سے لے کر یوگی حکومت کی نفرت کی سیاست پر تنقیدیں کی ہیں ۔ 104 سابق آئی اے ایس آفیسرس نے یو پی کو نفرت کی سیاست کا گڑھ قرار دیا ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کا پڑھا لکھا طبقہ اور ناخواندہ شخص حکومت کی نفرت کی سیاست کا شکار ہے اس کے باوجود بی جے پی کو کچھ دھکہ نہیں پہونچ رہا ہے تو پھر انتخابات کا عمل یکطرفہ ہونا مشکوک ہوجاتا ہے ۔ ملک کے کونے کونے میں شہریوں کے لیے خطرات منڈلا رہے ہیں ۔ ملک کے طول و عرض میں ایک بے چینی اور اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے لیکن بی جے پی نے زعفرانی لیڈرس کا جو جال بچھایا ہے اور اس جال میں ہر شہری پھنستا جارہا ہے ۔ سال 2020 نے ہندوستان کی سیاست کو اس قدر نفرت انگیز بنادیا کہ اس سے ہندوستانی جمہوریت کو زیادہ خطرات پیدا ہوگئے ۔ اپوزیشن کے تمام لوگ اپنی سیاسی کمزوریوں کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کو تباہی کی طرف ڈھکیلا ہے ۔ ملک کی معیشت کی راکھ سے نکلتی چنگاریاں ابھی دکھائی نہیں دے رہی ہیں ۔ سال 2020 کے ختم کے بعد سال 2021 آنے اور جانے تک ملک کی معیشت کس قدر نازک ہوجائے گی اس کا عوام ہی شکار بنا دئیے جائیں گے ۔ کورونا کے بہانے ملک کے بڑے ریل نٹ ورک کو ٹھپ کردیا گیا ۔ ریلوے ملازمین سے لے کر ریل مسافرین تک خاموش ہیں ۔ یہی خاموشی بی جے پی کو شیر بنا چکی ہے ۔ وہ ہر ریاست میں اپنا سیاسی اکھاڑہ قائم کرچکی ہے ۔ تلنگانہ میں اس نے اقتدار کی بازی مارنے کی اکھاڑہ مہم شروع کردی ہے ۔ سال 2020 نے بی جے پی کو بہت کچھ دیا ہے ۔ سال 2020 میں عوام کی خاموشی اور غیر ذمہ دارانہ طور پر زندگی بسر کرنے کی سزا 2021 میں کیا نوعیت کی ہوگی یہ تو نیا سال ہی بتائے گا ۔ امر واقع ہے کہ جب تک عوام اپنے حقوق کے تعلق سے بیدار نہیں ہوں گے حکومتیں اپنی سیاسی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے عوام کا استحصال کرتی رہیں گی ۔۔