سبھی چار دن کی ہیں چاندنی یہ ریاستیں یہ وزارتیں

,

   

گجرات الیکشن … عام آدمی سے بی جے پی کو خطرہ
گورنرس … مخالف حکومتوں کیخلاف بی جے پی کا ہتھیار

رشیدالدین
وزیراعظم نریندر مودی اگر کسی ریاست پر زیادہ مہربان ہوجائیں تو سمجھ جایئے کہ وہاں الیکشن قریب ہے۔ حالیہ عرصہ میں مودی۔امیت شاہ نے ہماچل پردیش اور گجرات کا دورہ کرتے ہوئے ہزاروں کروڑ کی اسکیمات کا اعلان کیا۔ جس ریاست میں الیکشن قریب ہوں بی جے پی قیادت کے دوروں میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے الیکشن والی ریاستوں کے علاوہ ملک میں کچھ بھی نہیں ہے۔ بی جے پی نے ملک کی تمام ریاستوں میں اقتدار کا خواب دیکھا ہے اور اسے حقیقت میں تبدیل کرنے کیلئے دو راستے اختیار کئے گئے ۔ الیکشن میں کامیابی حاصل ہوجائے تو ٹھیک ہے ورنہ عدم استحکام کے حالات پیدا کرتے ہوئے اپوزیشن کی حکومتوں کو زوال سے دوچار کردیا جائے۔ ملک میں اپوزیشن اور خاص طور پر کانگریس کے کمزور ہونے کے باعث بی جے پی دونوں محاذوں پر متحرک دکھائی دے رہی ہے ۔ گزشتہ برسوں میں 8 غیر بی جے پی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے ارکان اسمبلی کی بھیڑ بکریوں کی طرح خریداری کی گئی۔ بی جے پی کی تازہ ترین کامیابی مہاراشٹرا کی تھی جہاں شیوسینا، این سی پی اور کانگریس کی مخلوط حکومت کو زوال سے دوچار کردیا گیا لیکن اس کا بدلہ نتیش کمار نے بہار میں لے لیا۔ مغربی بنگال ، ٹاملناڈو ، کیرالا ، دہلی ، پنجاب ، راجستھان ، تلنگانہ اور اڈیشہ میں بی جے پی کے منصوبوں کی تکمیل آسان نہیں ہے۔ ہماچل پردیش اور گجرات بی جے پی کیلئے نیا چیلنج ہے۔ ہماچل پردیش میں چناؤ کا مرحلہ مکمل ہوگیا لیکن گجرات میں انتخابی مہم جاری ہے۔ نریندر مودی ۔ امیت شاہ کیلئے گجرات ایک وقار کی ریاست ہے جہاں گزشتہ 27 برسوں سے بی جے پی اقتدار میں ہے۔ مودی ۔ امیت شاہ کی آبائی ریاست کے نتیجہ پر قومی سطح کی سیاست کا انحصار رہے گا ۔ گزشتہ 8 برسوں سے گجرات کی اس جوڑی نے جس طرح ون میان شو کا مظاہرہ کیا ، اس پر پارٹی اور حکومت میں ناراضگی ضرور ہے لیکن ناراض عناصر کو موقع کا انتظار ہے۔ اگر وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی آبائی ریاست میں اقتدار سے محرومی ہوتی ہے تو اس کا اثر مودی۔امیت شاہ کے سیاسی مستقبل پر پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات کی یہ جوڑی الیکشن کے اعلان سے قبل ہی سے گجرات میں سرگرم ہے۔ گجرات کے چناؤ پر ملک بھر کی نظریں اس لئے بھی ہیں کیونکہ وہاں مودی۔امیت شاہ کا وقار داؤ پر ہے۔ گجرات میں کانگریس کے کمزور موقف سے بی جے پی چین کی سانس لے رہی تھی کہ عام آدمی پارٹی نے نیند حرام کردی۔ دہلی اور پنجاب میں کامیابی کے بعد اروند کجریوال نے گجرات میں تبدیلی کا نعرہ لگایا۔ جس انداز میں کجریوال کو عوامی تائید حاصل ہورہی ہے ، وہ غیر معمولی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے گجرات کے عوام بی جے پی کی مسلسل حکمرانی سے عاجز آچکے ہیں۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کی دہلی منتقلی کے بعد سے گجرات میں بی جے پی کے پاس کوئی عوامی مقبول چہرہ نہیں رہا جو بی جے پی کی کشتی کو ساحل تک پہنچا سکے۔ بی جے پی کو گجرات میں وقفہ وقفہ سے چیف منسٹرس کو تبدیل کرنا پڑا اور موجودہ چیف منسٹر بھی غیر مقبول ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے خطرہ سے نمٹنے کیلئے بی جے پی کو امیت شاہ کی گھر واپسی کا فیصلہ کرنا پڑسکتا ہے ورنہ عام آدمی پارٹی کی پیشرفت کو روکنا آسان نہیں ہوگا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق گجرات میں کانگریس کا وجود برائے نام ہوکر رہ گیا ہے اور عام آدمی پارٹی اس موقف میں ہے کہ بی جے پی کا مقابلہ کرے۔ وزیراعظم نے گجرات میں ہزاروں کروڑ کے پراجکٹس کا آغاز کیا لیکن صرف اعداد و شمار کے کھیل سے عوام کی ہمدردی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ وزیراعظم کے اعلانات سے دیگر ریاستوںکے عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا مرکزی بجٹ صرف گجرات کیلئے ہے ؟ ساری دنیا میں گجرات ماڈل کا ڈھنڈورا پیٹا گیا لیکن کیبل برج کے انہدام نے گجرات ماڈل کی حقیقت عوام کے سامنے آشکار کردی۔ حادثہ میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے لیکن گودی میڈیا نے اس واقعہ کو اپنے ہیڈ لائینس اور مباحث میں شامل نہیں کیا کیونکہ انہیں حکومت اور بی جے پی کی نمک حلالی کرنی تھی۔ گودی میڈیا پر بی جے پی کے کنٹرول کا یہ عالم ہے کہ کونسا بلیٹن کس اینکر کو دیا جائے اور کس کی زبانی مودی کے کارنامے بیان کئے جائیں ، اس کا فیصلہ بھی بی جے پی ہیڈکوارٹر سے کیا جاتا ہے ۔ اگر کسی غیر بی جے پی ریاست میں یہ واقعہ ہوتا تو اینکرس گلا پھاڑ کر چیف منسٹر سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے۔ جس طرح ہر عروج کے بعد زوال کا خطرہ ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح ملک میں مودی اور بی جے پی کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے ۔ بی جے پی کو 2024 ء کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بارے میں ابھی سے تشویش ہے۔ حکومت اور پارٹی پر مودی کی گرفت اور ون میان شو کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مودی خود کو الیکشن میں پارٹی کا واحد نجات دہندہ تصور کرنے لگے ہیں ۔ غرور اور تکبر کی انتہا کرتے ہوئے مودی نے ہماچل پردیش انتخابی مہم میں رائے دہندوں سے کہا کہ وہ امیدوار کو نہ دیکھیں بلکہ ان کی صورت دیکھ کر ووٹ دیں۔ مطلب یہ ہوا کہ نریندر مودی حکومت اور پارٹی دونوں سے بالاتر ہیں۔ ہماچل پردیش کی تقریر کے ذریعہ مودی نے مقامی قائدین اور امیدواروں کی توہین کی ہے۔ کئی قابل امیدوار بھی ہوں گے جو عوامی خدمات کے ریکاڈ کی بنیاد پر منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مودی کا چہرہ دیکھ کر ووٹ دینے کا مطلب یہ ہوا کہ پارٹی میں تمام نااہل ہیں۔
الیکشن میں کامیابی کے لئے بی جے پی کے پاس ترقیاتی ایجنڈہ سے زیادہ ہندوتوا ایجنڈہ فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ ہماچل اور گجرات کی انتخابی مہم میں بی جے پی نے یکساں سیول کوڈ ، سی اے اے اور این آر سی جیسے موضوعات کو چھیڑ کر مذہبی بنیادوں پر رائے دہندوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بی جے پی نے ہمیشہ ہندو ووٹ بینک متحد کرنے پر توجہ دی اور حالیہ اسمبلی انتخابات میں کئی ریاستوں میں ہندوتوا ایجنڈہ کامیاب رہا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ کوئی بھی طاقت یکساں سیول کوڈ کے نفاذ روک کو روک نہیں پائے گی۔ جیسے ہی انتخابات قریب آتے ہیں بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو متحرک کردیا جاتا ہے ۔ کرناٹک میں عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ کاشی اور متھرا کے معاملات کو عدالت تک پہنچادیا گیا تاکہ بابری مسجد کی طرح عدلیہ کے ذریعہ دونوں تاریخی عبادتگاہوں کو حاصل کیا جائے ۔ کرناٹک میں بی جے پی حکومت نے عیدگاہوں پر ہندو مذہبی رسوم ادا کرنے کی اجازت دیتے ہوئے مسلم اقلیت میں خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ آسام میں دینی مدارس سے یکم ڈسمبر تک رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ ملک کے ہر شعبہ میں بی جے پی کی مداخلت اور عوام پر بی جے پی مسلط کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ G-20 ممالک کی صدارت کے سلسلہ میں وزیراعظم نے ہندوستان کا جو لوگو جاری کیا ، اس میں بی جے پی کا انتخابی نشان کنول شامل کیا گیا ہے ۔ اگر بی جے پی کا بس چلے تو کرنسی نوٹ پر کنول شامل کردیا گیا جائے گا۔ دوسری طرف گورنر کا عہدہ ملک میں پھر ایک مرتبہ تنازعہ میں گھر چکا ہے۔ مرکز میں برسر اقتدار پارٹی کی جانب سے گورنرس کا تقرر کیا جاتا ہے اور عام طور پر گورنرس مرکز اور ریاست کے درمیان پل کا کام کرتے ہیں۔ ویسے تو اس عہدہ کی کوئی خاص ضرورت اس لئے بھی نہیں ہے کہ گورنر کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہوتے۔ گورنر کے عہدہ کو سیاسی اغراض کے لئے استعمال کرنے میں بی جے پی نے کانگریس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ غیر بی جے پی حکومتوں کو ہراساں کرنے کیلئے گورنرس کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔ بی جے پی نے جب یہ محسوس کرلیا کہ مخالف ریاستی حکومتوں پر کسی بھی کارروائی کا اثر نہیں ہوا تو گورنرس کو سیاسی رول ادا کرنے پر مجبور کردیا گیا ۔ مغربی بنگال ، ٹاملناڈو ، تلنگانہ اور کیرالا میں گورنرس اور حکومتوں کے درمیان سرد جنگ جاری ہے ۔ کیرالا میں عارف محمد خاں نے بائیں بازو حکومت کیلئے کئی مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ٹاملناڈو میں گورنر کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ڈی ایم کے حکومت نے صدر جمہوریہ سے گورنر کو واپس طلب کرنے کی اپیل کی ہے۔ تلنگانہ میں گورنر سوندرا راجن کھل کر کے سی آر حکومت کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آ ئی ہیں۔ بی جے پی گورنر کے عہدوں کو سیاسی انتقامی کارروائی کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ سابق میں جب کبھی گورنرس نے اوور ایکشن کیا ، عوام کی تائید حکومت کے ساتھ رہی۔ یہ پہلا موقع ہے جب ایک ساتھ کئی ریاستوں میں گورنر اور حکومت کے درمیان دوریاں پیدا ہوچکی ہیں۔ جمہوریت میں گورنر کا عہدہ انگشت ششم کی طرح ہے اور اسے سیاسی بازآبادکاری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر گورنرس حکومت کے معاملات میں مداخلت کرنے لگیں تو اس سے جمہوریت کمزور ہوگی۔ ڈاکٹر بشیر بدر نے کیا خوب کہا ہے ؎
سبھی چار دن کی ہیں چاندنی یہ ریاستیں یہ وزارتیں
مجھے اُس فقیر کی شان دے کہ زمانہ جس کی مثال دے