سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا

,

   

مرکزی بجٹ۔ مسلمانوں سے پھر ناانصافی
مسلم قیادت آر ایس ایس کے نشانہ پر

رشیدالدین
نیا سال اور نئے بجٹ کا آغاز مودی حکومت نے مسلم دشمنی سے کیا ہے۔ عام طور پر جب کبھی بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو فلاحی اسکیمات اور کمزور طبقات کی بھلائی کے فنڈس میں اضافہ کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت غریبوں اور کمزور طبقات کی ہمدرد ہے۔ بھلے ہی بجٹ میں مختص کردہ رقم جاری اور خرچ نہ کی جائے لیکن بجٹ میں اضافہ درج ہوتا ہے تاکہ ووٹ بینک متاثر نہ ہونے پائے۔ روایت بھلے ہی کچھ ہو لیکن نریندر مودی حکومت مکمل ہندوتوا حکومت میں تبدیل ہوچکی ہے اور اس کے پیش نظر صرف ہندو ووٹ بینک ہے۔ مودی حکومت کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے کوئی مطلب نہیں اور نہ ہی ان کی ضرورت ہے۔ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس، سب کا وشواس‘‘ محض زبانی اور کاغذی بن کر رہ گیا ہے۔ نعرہ اپنی جگہ برقرار ہے لیکن عمل تو اس کے برخلاف ہی نہیں بلکہ بسا اوقات یہ تاثر دیا جاتا ہے جیسے ہندوستان ہندو راشٹر بن چکا ہو۔ مسلمانوں کے ساتھ عام طور پر حکومتوں کا رویہ دل جوئی اور کان خوش کرنے کا ہوتا ہے لیکن مودی حکومت کان خوش کرنے بھی تیار نہیں ہے۔ اچھا ہوا کہ بی جے پی حکومت نے دوہرے معیار کے بجائے مخالف مسلم موقف واضح طور پر اختیار کرلیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اپنا موقف طے کرنے اور خواب غفلت سے بیدار ہونے کا موقع ملے گا۔ 2002ء گجرات فسادات سے لے کر 2014ء مرکز میں برسر اقتدار آنے کے بعد بی جے پی اور سنگھ پریوار میں مسلم دشمنی کے مظاہرے میں کوئی کمی نہیں کی۔ لیکن مسلمان ہیں کہ بیداری کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بے حسی کا یہ ماحول پتہ نہیں آنے والے دنوں میں مزید کیا دن دکھائے گا۔ مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے مالیاتی سال 2023-24 کا بجٹ پیش کیا چوں کہ جاریہ سال تقریباً 8 ریاستوں میں اسمبلی چنائو ہیں اور آئندہ سال لوک سبھا چنائو ہوں گے۔ لہٰذا الیکشن بجٹ کہا جارہا ہے۔ بجٹ میں ہر شعبہ کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مسلمانوں سے کھلی ناانصافی کی گئی۔ اقلیتی بہبود کے بجٹ میں اضافے کے بجائے 38 فیصد کی کمی کردی گئی۔ گزشتہ سال کے مقابلے 1922 کروڑ روپئے بجٹ کم کردیا گیا۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت کے لیے یہ رقم اونٹ کے منہ میں رائی کے دانے کے مترادف ہے۔ مسلمانوں کی ترقی اور بہبود کا جہاں تک سوال ہے سکیولر پارٹیوں نے بھی ٹھوس اقدامات نہیں کئے اور اب تو آر ایس ایس کے رموٹ کنٹرول سے چلنے والی حکومت مرکز میں برسر اقتدار ہے جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔ ایسی حکومت سے بھلائی کی امید کرنا عبث ہے۔ مسلم دشمنی کے عملی اقدام کا پہلا مظاہرہ مرکزی وزارت سے مسلم نمائندگی کو ختم کرتے ہوئے کیا گیا۔ مختار عباس نقوی راجیہ سبھا کی میعاد کی تکمیل پر مرکزی کابینہ سے مستعفی ہوگئے۔ بی جے پی نے پارٹی کے واحد مسلم چہرہ کو راجیہ سبھا کی رکنیت میں توسیع کا خیال تک نہیں لایا۔ ملک کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے جب مرکزی کابینہ مسلم وزیر کے بغیر 6 ماہ مکمل کرچکی ہے۔ جولائی 2022ء سے کوئی مسلم وزیر نہیں ہے اور نریندر مودی کو اس کی کوئی پرواہ بھی نہیں۔ بی جے پی کے دو مسلم چہرے مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین ان دنوں گوشۂ گم نامی میں جاچکے ہیں۔ یہ وہی قائدین ہیں جو مودی اور بی جے پی کی تائید میں ہمیشہ اپنی وفاداری کا کچھ زیادہ ہی اظہار کرتے رہے لیکن آج مودی اور بی جے پی کو ان کی ضرورت نہیں ہے۔ شاید ان دونوں کو ’’لوجہاد‘‘ کی سزاء دی گئی ہے جو انہوں نے اشوک سنگھل اور مرلی منوہر جوشی کے گھر میں کی تھی۔ ظاہر ہے کہ جب مسلم وزیر کی ضرورت نہیں ہے تو پھر وزارت اقلیتی امور کا وجود کس کام کا۔ مودی حکومت اقلیتوں کی اسکیمات ایک ایک کرکے ختم کررہی ہے۔ شریعت میں مداخلت اور مختلف عنوانات سے ماب لنچنگ کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کیا گیا اور پھر تعلیمی ترقی روکنے کا منصوبہ ہے۔ اقلیتی طلبہ کے لیے پری میٹرک اسکالرشپ کو ختم کردیا گیا۔ اعلی تعلیم کے تحت ریسرچ کے لیے اقلیتی امیدواروں کو دی جانے والی مولانا آزاد فیلوشپ کو ختم کردیا گیا۔ تعلیم کے بغیر کسی بھی قوم کا مستقبل تابناک نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اقلیتوں کو تعلیم سے محروم کرنے تعلیمی امداد کی اسکیمات کو ختم کردیا گیا۔ اب اطلاعات یہاں تک ہیں کہ وزارت اقلیتی امور کو وزارت سماجی انصاف میں ضم کردیا جائے گا تاکہ حکومت میں اقلیتوں کے نام سے کوئی محکمہ باقی نہ رہے۔ اس موقع پر ہمیں نریندر مودی کے وہ جملے یاد آرہے ہیں جو 2014ء میں وزارت عظمی پر فائز ہونے سے قبل اور مارچ 2018ء میں اردن کے شاہ کی استقبالیہ تقریب میں ادا کئے گئے تھے۔ نریندر مودی نے کہا تھا کہ ان کی حکومت مسلم نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن مجید اور دوسرے میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتی ہے۔ دل میں کچھ اور زبان پر کچھ کے مصداق مودی حکومت نے اس کا الٹا ہی کیا۔ دینی مدارس کے خلاف مہم اور بلڈوزر کارروائیوں کے ذریعہ مسلم بچوں کو قرآن مجید سے دور کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں دینی مدارس کو سرکاری نصاب پڑھانے کے لیے پابند کیا جارہا ہے۔ علامہ اقبال کی دعائیہ نظم ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ بھی برداشت نہیں۔ قرآن مجید اور کمپیوٹر دینے کے نام پر مسلمانوں سے قلم چھین لیا جارہا ہے۔ اسکالرشپ اور فیلوشپ کی برخاستگی تعلیم سے دور کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔ نریندر مودی وزیراعظم کے عہدے پر اپنا حلف شاید بھول گئے ہیں جس میں تمام باشندوں کے ساتھ کسی جانبداری کے بغیر یکساں سلوک کا عہد کیا گیا تھا۔ 2024ء تک ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا اعلان کرنے والی بی جے پی اور سنگھ پریوار سے مسلمانوں کی ہمدردی کی توقع کرنا فضول ہے۔ جن کا مقصد مسلمانوں کے وجود کو ہی ختم کرنا ہے۔ وہ ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں کمپیوٹر ہرگز نہیں دیں گے۔
بی جے پی اور سنگھ پریوار نے ملک میں مسلمانوں کو بے یار و مددگار اور کسی بھی قیادت سے محروم کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اس منصوبہ کے تحت مسلم قیادتوں پر حملہ کیا گیا اوریہ حملہ مسلمانوں میں مذہبی اور سیاسی قیادتوں پر اعتبار کو ختم کرنا ہے۔ مسلمانوں سے قریب ہونے کے نام پر مذہبی، سماجی اور سیاسی مسلم قائدین سے خفیہ ملاقاتیں کی جارہی ہیں۔ نئی دہلی میں بعض نام نہاد مسلم دانشور بی جے پی کے اعلی کار بن چکے ہیں اور آر ایس ایس کے اشارے پر مسلم قائدین کو ملاقات کے لیے مدعو کررہے ہیں۔ بعض اعلی کار حکومت میں کسی اہم عہدے کے خواہشمند ہیں تو بعض مختلف مسائل کا شکار ہیں اور بحران سے ابھرنے کے لیے آر ایس ایس کا دامن تھام چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں جماعت اسلامی، جمعیۃ العلماء ہند اور بعض دیگر مسلم جماعتوں کے ذمہ داروں نے آر ایس ایس کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ ملاقات کا ایجنڈا بہ ظاہر تو مسلمانوں میں اعتماد پیدا کرنا ہے لیکن الیکشن سے قبل مسلمانوں سے قریب ہونے کی کوشش کئی سوال کھڑے کرتی ہے۔ دراصل ملک میں بی جے پی کے خلاف مخالفت کا ماحول دن بہ دن بڑھنے لگا ہے۔ ایسے میں بی جے پی چاہتی ہے کہ کم از کم سکیولر ووٹ تقسیم کرتے ہوئے اپنی کامیابی کو یقینی بنایا جائے۔ مسلم مذہبی اور سیاسی قائدین کو دوراندیشی سے کام لینا چاہئے تھا۔ انہیں آر ایس ایس کی دعوت کو قبول کرنے سے پہلے مسلمانوں کو اس بات سے واقف کرانا چاہئے تھا کہ آر ایس ایس مسلمانوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہتی ہے۔ مسلمانوں کو اعتماد میں لیئے بغیر بعض مذہبی رہنمائوں نے آر ایس ایس کے نمائندوں سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ اطلاعات کے مطابق مسلمانوں کو سمجھانے کا بھروسہ دلایا۔ اب جبکہ خفیہ ملاقات منظر عام پر آگئی تو ملاقات کرنے والے مسلم قائدین مختلف بہانے بازی کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی سلامتی اور مذہبی تشخص پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ملاقات کے بارے میں دعوت نامے کو راز میں کیوں رکھا گیا؟ بی جے پی نے مسلم قیادتوں سے مسلمانوں کو متنفر کرنے کے لیے آر ایس ایس کا سہارا لیا ہے۔ سابق میں بھی بعض مذہبی اور سیاسی قائدین آر ایس ایس سے ربط میں رہے لیکن آج وہ مسلمانوں کے احترام سے محروم ہوچکے ہیں۔ نئی دہلی میں آئمہ مساجد کی تنظیم کے سربراہ نے موہن بھاگوت کو بابائے قوم کے خطاب سے نوازا ہے۔ درپردہ ملاقات کرنے والے سیاسی اور مذہبی قائدین کو اپنا ضمیر ٹٹولنا چاہئے۔ انہیں اپنے ایمان کا جائزہ لینا ہوگا کہ وہ مسلمانوں اور اسلام کے مفادات کو کس طرح نقصان پہنچارہے ہیں۔ وہ دنیا میں عوام سے چھپ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں لیکن اللہ کی گرفت سے بچ نہیں پائیں گے۔ اسلام اور مسلمانوں سے سنگھ پریوار کی واضح دشمنی کے باوجود سیاسی میدان میں درپردہ مدد کرنا انتہائی شرمناک ہے۔وہ دن دور نہیں جب خود مسلمان اپنے حقیقی ہمدردوں اور حکومت کے جاسوسوں کے درمیان تمیز کرلیں گے۔ ملک کی موجودہ صورتحال پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لو جو لنگوٹی نہیں تو کیا