ستیہ پال ملک کے انکشافات

   

کیا ملا تم کو میرے عشق کا چرچا کرکے
تم بھی رسوا ہوئے مجھکو بھی رسوا کرکے
جموںو کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے پلواما واقعہ کے تعلق سے کئی انکشافات کئے ہیں اور ان تمام کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ پلواما واقعہ میں ہمارے 40 سے زیادہ جوان شہید ہوگئے تھے اور اس وقت کے گورنر جموںو کشمیر ستیہ پال ملک کے بموجب یہ سانحہ دراصل متعلقہ حکام کی غلطیوں اور کوتاہی کا نتیجہ تھا ۔ پلواما واقعہ جب رونما ہوا تھا اس وقت سبھی گوشوں کی جانب سے حکومت سے سوال کیا گیا تھا ۔ اس کو سکیوریٹی کوتاہی قرار دیا گیا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ سکیوریٹی اہلکاروں کو منتقلی کیلئے طیارے کیوں نہیں فراہم کئے گئے تھے ۔ کیوں انہیں ایک ایسے راستے پر جانے کی اجازت دی گئی تھی جن پر سکیوریٹی کے خاطر خواہ انتظامات نہیں تھے ۔ ان سوالوں کو اس وقت کے ماحول میں ملک کی سکیوریٹی اور سلامتی کے پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے خاموش کردیا گیا تھا ۔ ستیہ پال ملک پلواما واقعہ کے وقت جموں و کشمیر کے گورنر تھے اور انہوں نے اب جو انکشافات کئے ہیں ان پر جواب دئے جانے کی ضرورت ہے ۔ ستیہ پال ملک کا کہنا تھا کہ انہوں نے ارباب مجاز کی جان سے غلطیوں کے تعلق سے ذمہ دار اتھاریٹی کو واقف کروا دیا تھا لیکن نہ صرف یہ کہ کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ ان سے کہا گیا کہ وہ خاموشی اختیار کرلیں۔ سابق گورنر جموںو کشمیر نے اس کے علاوہ دیگر کئی امور کے تعلق سے بھی کئی انکشافات کئے ہیں لیکن ان تمام کے جواب دینے کی بجائے ان سے توجہ ہٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کچھ گوشوں کا خیال ہے کہ اترپردیش میں گینگسٹر سے سیاستدان بننے والے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کا قتل بھی ستیہ پال ملک کے الزامات بلکہ انکشافات سے توجہ ہٹانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جو میڈیا چینلس چاپلوسی میں سر فہرست ہیں وہ بھی ستیہ پال ملک کے انکشافات کے تعلق سے مباحث کروانے اور سوال پوچھنے پر مجبور ہوگئے تھے لیکن اب ساری توجہ ان سے ہٹادی گئی ہے اور ہر کوئی اترپردیش میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال اور عتیق قتل کیس کے تعلق سے ہی اظہار خیال کر رہا ہے ۔جو توجہ ان انکشافات کو ملنی چاہئے تھی وہ اب بالکل بھی نہیں مل پا رہی ہے ۔
ستیہ پال ملک کا کہنا تھا کہ سکیوریٹی اہلکاروں کی جانب سے فوجی جوانوں کی منتقلی کیلئے وزارت دفاع سے طیارہ فراہم کرنے کو کہا گیا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ سابق گورنر نے کہا کہ جب انہوں نے اس تعلق سے وزیر اعظم اور مشیر قومی سلامتی کو واقف کروایا تو ان سے کہا گیا کہ وہ اس تعلق سے خاموشی اختیار کرلیں۔ سابق گورنر کا کہنا تھا کہ اگر وہ مجاز ہوتے اور ان سے کہا جاتا کہ طیارہ فراہم کئے جائیں تو وہ ضرور طیارہ فراہم کرواتے ۔ انہوں نے اس کو ایک سنگین سکیوریٹی غلطی قرار دیا تھا اور کہا کہ اگر وہ وزیر داخلہ ہوتے تو اس بڑے حادثہ یا واقعہ کے بعد وہ ضرور مستعفی ہوجاتے ۔ ستیہ پال ملک کے انکشافات کو انتہائی اہمیت کے حامل اور حساس قرار دیا جاسکتا ہے ۔ یہ ہمارے ملک کے فوجی جوانوں کی شہادت کا مسئلہ ہے ۔ ہمارے دشمن ضرور ہمارے فوجیوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اور ملک کے مفادات کو متاثر کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر ہمارے ارباب مجاز کی جانب سے ہی اگر اس طرح کی غفلت کی جاتی ہے یا غلطی کی جاتی ہے تو اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ ہے اور اس کا جائزہ لئے جانے کی ضرورت ہے ۔ جو الزامات عائد کئے گئے ہیں ان کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کی جانچ ہونی چاہئے ۔ جو کوئی اس طرح کی غلطی کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے ۔ ان سے جواب طلب کیا جانا چاہئے ۔ اس سارے معاملے میں اگر کسی سے کوتاہی اور غلطی ہوئی ہے تو اس کی وجوہات اور اس کے پس پردہ محرکات کا بھی پتہ چلانے کی ضرورت ہے ۔
اہمیت کے حامل اور حساس نوعیت کے مسائل سے توجہ ہٹاتے ہوئے کام چلانے کی روش ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتی ۔ کسی کی یہ واقعی غلطی ہے یا پھر عمدا ایسا کیا گیا ہے اس کا پتہ چلانا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ پتہ چلاتے ہوئے حقائق سے ملک کے عوام کو واقف کروایا جانا چاہئے ۔ ملک کی سلامتی اور سکیوریٹی کے ساتھ ساتھ ملک کی سرحدات کی حفاطت کرنے والے فوجیوں کے تعلق سے بھی لاپرواہی قابل قبول ہرگز نہیں ہوسکتی ۔ اس کو انتہائی اہمیت دیتے ہوئے حقائق کا پتہ چلانا چاہئے ۔ ملک کے عوام میں اس تعلق سے بے چینی پیدا ہوسکتی ہے اور اس کو حقائق منظر عام پر لاتے ہوئے دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔