سرکاری امداد کی فوری تقسیم ضروری

   

کتنی حقیقتیں ہیں توجہ کی منتظر
منزل سے بے نیاز ہے ذوقِ سفر ابھی
سرکاری امداد کی فوری تقسیم ضروری
کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے سارا ملک بند ہے ۔ عوام اپنے گھروں میں بند ہیں۔ کوئی روزگار کا ذریعہ باقی نہیں رہ گیا ہے ۔ حکومت نے خود سارے کام کاج بند کردینے اور عملا کرفیو لاگو کردینے کا اعلان کیا ہے ۔ دن میں عوام کو اشیائے ضروریہ کی خریدی کیلئے گھروں سے نکلنے کی اجازت ضرور دی گئی ہے تاہم وہ بھی محدود ہے ۔ حکومت کے یہ اقدامات احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کئے گئے ہیں اور ان اقدامات سے عوام کو ہی اس مہلک وباء سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ تاہم اس لاک ڈاون نے کروڑہا ہندوستانیوں کی زندگی کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہندوستان کے عوام کی اکثریت یومیہ اجرت پر کام کرتی ہے ۔ اس معاملہ میں بھی جو لوگ رجسٹرڈ اور منظم شعبوں سے وابستہ ہیں ان کیلئے حکومت کی امداد کا انتظام ہونے کے امکانات ہیں لیکن کروڑہا لوگ ایسے بھی ہیں جو غیرمنظم شعبہ سے تعلق رکھتے ہیںاور ان کا نہ کوئی رجسٹریشن ہے اور نہ ان کی نمائندگی کرنے والی کوئی تنظیم ہی موجود ہے ۔ اس صورتحال نے ان لوگوں کی زندگیوںکو بے طرح مشکلات اور مسائل کا شکار کردیا ہے ۔ یہ لوگ دو وقت تو دور کی بات ہے ایک وقت بھی پیٹ بھر روٹی حاصل کرنے کے موقف میں نہیں رہ گئے ہیں اور ان کا سارا دار و مدار اب صرف لوگوں سے ملنے والی مدد اور امداد پر ہی ہوگیا ہے ۔ سماج میں کئی گوشے ایسے ہیں جو ان غریبوں کی مدد کیلئے آگے آئے ہوئے ہیں اور ان میں راشن اور دوسری ضروری اشیا کی تقسیم کو یقینی بنایا جا رہا ہے ۔ اس کی تشہیر بھی ہو رہی ہے اور کچھ حقیقی معنوں میں خاموشی سے مدد کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ سماجی سطح پر امدادی سرگرمیاں زوروں پر ہیں لیکن یہ تمام مستحقین کی ضروریات کو پوری کرنے کیلئے کافی نہیں ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی سطح پر کرنے والا کام ہے جو فی الحال نہیں ہو پا رہا ہے ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت بھی اپنے خزانوں کے منہ کھول دے ۔ حکومت کی سطح پر سماج کے غریب طبقات کی مدد کیلئے اقدامات کو تیز رفتار کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو اعلانات کئے جاچکے ہیں ان کو عملی شکل دینے کیلئے فوری اقدامات کئے جانے چاہئیں۔
مرکز کی نریندر مودی حکومت نے بھی لاک ڈاون کے بعد سماج کے مختلف طبقات کیلئے مدد کے پیاکیج کا اعلان کیا تھا ۔ اسی طرح ہماری ریاست تلنگانہ میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو نے بھی سماج کے غریب طبقات کی مدد کیلئے کچھ اقدامات کا اعلان کیا تھا ۔ دونوں ہی حکومتوں کے اقدامات کو اگر ایک دوسرے کے ساتھ تال میل اور اشتراک کے ذریعہ عملی شکل دی جاتی ہے تو اس سے عوام کو کچھ حد تک راحت ضرور مل سکے گی ۔ اب جبکہ لاک ڈاون کو 10 دن کا وقت ہو رہا ہے عوام کی جیبیں خالی ہوگئی ہیں۔ لوگ اب ایک وقت کے کھانے کیلئے بھی پریشان ہونے لگے ہیں۔ اس کیلئے بھی انہیں کسی صاحب خیر کی مدد کا انتظار رہنے لگا ہے ۔ ایسے میں اگر حکومت کی جانب سے معلنہ امداد فراہم کی جاتی ہے تو غریب عوام کی پریشانیوں کو کچھ حد تک ہی صحیح کم کیا جاسکتا ہے ۔ ان کی پیٹ کی آگ کو بجھانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ جو نقد رقومات فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اگر وہ فراہم کردی جاتی ہیں تو انہیں مزید راحت مل سکے گی ۔ لوگ دودھ اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرپائیں گے ۔ دو وقت کی روٹی ان کے پیٹ میں جا سکے گی ۔ حکومتوں کو اب تک کئے گئے اعلانات پر ہی اکتفاء نہیں کرنا چاہئے ۔ پہلے ان اعلانات اور وعدوں کو پورا کرنا چاہئے اور اس کے علاوہ بھی ممکنہ حد تک عوام کی مشکلات کو کم کرنے اور انہیں راحت دینے کیلئے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔
انتہائی مشکل ‘ پریشانی اور بحران کے اس وقت میں پوری ذمہ داری اور فراخدلی کے ساتھ حکومت کو غریبوں کی مدد میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنی چاہئے ۔ اس کے علاوہ درمیانی دلالوں کے رول کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو اعلانات کئے گئے ہیں ان کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کوئی درمیانی دلال ان کا استحصال نہ کرنے پائے ۔ ان کے حق پر کوئی ڈالہ نہ ڈال سکے اور حکومتیں جن لوگوں کو راحت پہونچانا چاہتی ہیں واقعی انہیں راحت مل سکے ۔ سماج کے ہر طبقہ کو اس کام میں آگے آنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ جہاں کوئی بھی ہندوستانی کورونا وائرس کی وجہ سے فوت نہ ہونے پائے وہیں کوئی بھی ہمارا ہندوستانی بھائی بھوک اور فاقہ کشی سے بھی مرنے نہ پائے۔