!سرکاری ملازمتوں میں بھی کٹوتیاں

   

ہندوستان بھر میں ملازمتوں کا مسئلہ بتدریج ایک بحران کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ جہاں خانگی شعبہ میں گذشتہ برسوں کے دوران لاکھوں ملازمتوں کو برخواست کردیا گیا اور کچھ شعبہ جات میں اب بھی یہ کٹوتیاں خاموشی سے جاری ہیں وہیں حالیہ عرصہ میں یہ اطلاعات بھی آنے لگی ہیں کہ خود سرکاری ملازمتوں میں بھی کمی ہونے والی ہے ۔ جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق ریلویز میں تقریبا ایک لاکھ ملازمتوں کو ختم کردیا گیا ہے یا کیا جا رہا ہے ۔ اسی طرح بی ایس این ایل میں بھی تقریبا پچاس ہزار ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں ۔ اب یہ اطلاع بھی سامنے آ رہی ہے کہ ملک کی مسلح افواج میں بھی تقریبا 27 ہزار ملازمتیں ختم ہوسکتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار تو وہ ہیں جو سامنے آئے ہیں اور محض دو یا تین شعبوں کے ہیں تاہم بے شمار سرکاری محکموں میں لاکھوں کی تعداد میں سرکاری ملازمتوں کی کٹوتی کا ایک طرح سے سلسلہ سا شروع ہوگیا ہے ۔ یہ اقدامات پہلے خانگی شعبہ میں ہوا کرتے تھے اور وہاں بھی کچھ مخصوص شعبے اس سے متاثر ہوا کرتے تھے ۔ ایک شعبہ میں ملازمتوں کی کٹوتی ہوتی بھی تھی تو دوسرے شعبوں میں اس کی بھرپائی ہوجایا کرتی تھی تاہم اب یہ صورتحال ہوگئی ہے کہ خانگی شعبوں میں خاموشی سے ملازمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ شعبہ جات اپنی تشویش کا متعلقہ فورم میں اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن یہ اطلاعات عام نہیں ہو رہی ہیں اور نہ ہی حکومتوں کی جانب سے اس سلسلہ میں کوئی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ حالات کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ حکومت کی جانب سے نہیں کی جا رہی ہے ۔ اب تو یہ حد ہوگئی ہے کہ خود سرکاری محکمہ جات میں ملازمتوں میں کٹوتی کا ایک سلسلہ شروع ہوچکا ہے جو تشویش کی بات ہے اور اس سے ملک کی معیشت پر ہونے والے منفی اثرات اور ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری پر تشویش پیدا ہورہی ہے ۔ ملازمتوں میں کٹوتی سے عوام کے معیار زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سارا کچھ ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے اس مسئلہ پر قابو پانے اور ملازمتوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ حقیقت کا اعتراف تک نہیں کیا جا رہا ہے ۔
حکومت صرف اعداد و شمار کے الٹ پھیر کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہے ۔ پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں ۔ یہ اچھی بات ہے کہ حکومت اس سلسلہ میں کوشاں ہے لیکن اس سے پہلے اپنی بنیادوں کو مستحکم رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے عوام میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ اچھی علامت نہیں کہا جاسکتا ور اس کے راست یا بالواسطہ طور پر معیشت پر منفی اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں۔ عوام میں روزگار نہیں ہوگا اور پیسے نہیں ہوگا تو ان کی قوت خرید متاثر ہوگی ۔ ان کی قوت خرید کم ہوگی تو بازار میں اشیا کی طلب اور کھپت میں کمی آجائیگی اور یہ کمی پیداوار میں کمی کا موجب بنے گی ۔ پیداوار میں کمی ہوگی تو جو ملازمین مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں فی الحال برسر کار ہیں ان کی ملازمتوں پر بھی آنچ آسکتی ہے ۔ ان کا روزگار بھی متاثر ہوسکتا ہے ۔ ان میں بھی کچھ لوگوں کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے ۔ ہندوستان میں ایک شعبہ دوسرے شعبہ سے مربوط ہے ۔ ہر شعبہ کی کارکردگی کا کچھ حد تک ہی صحیح ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے اور سب سے زیادہ انحصار عوام کے روزگار اور قوت خرید پر ہوتا ہے اور ملازمتوں میں مسلسل کٹوتی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیروزگاری کی وجہ سے قوت خرید کی صلاحیت پر ہی سب سے زیادہ منفی اثر ہوگا ۔ مرکزی حکومت اس جانب کوئی توجہ دینے تیار نظر نہیں آتی ۔ اس کا اپنا ایک الگ ہی ایجنڈہ نظر آتا ہے ۔
حکومت متنازعہ مسائل کو ہوا دیتے ہوئے عوام کی توجہ ان اہمیت کے حامل مسائل سے ہٹانے میں کامیاب ہوتی جا رہی ہے ۔ ملازمتوں کی کمی تاہم ایسا مسئلہ نہیں ہے جس سے حکومت زیادہ عرصہ تک عوام کی توجہ ہٹاپائے گی ۔ عوام کی توجہ سے زیادہ اہمیت ملک کی معیشت کے استحکام کا اور عوام کے گذر بسر کا مسئلہ بھی ہے اور اس پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو خانگی اور سرکاری شعبہ جات میں ماحول کو سازگار بنانے اور معاشی سرگرمیوں میں تیزی لانے کیلئے جامع اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملازمتوں میں کٹوتی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ سنگین بحران بننے سے پہلے حل کرلیا جاسکے ۔