سری لنکا کے نئے صدر اور مشکلات

   

سری لنکا میں سابق وزیر رانیل وکرما سنگھے کو ملک کے صدر کی حیثیت سے منتخب کرلیا گیا ہے ۔ پارلیمنٹ میں آج ان کا انتخاب عمل میں آیا اور ان کے مخالف امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ جس طرح سے سابق صدر گوٹابایا راجہ پکشے کو ملک سے فرار ہونا پڑا ہے اور انہوں نے استعفی پیش کردیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو نئے صدر وکرما سنگھے منتخب ہوئے ہیں ان کیلئے بھی نئی ذمہ داریاں آسان نہیںہونگی ۔ ملک کے جو حالات ہیں اورعوام جس حد تک برہم ہوگئے ہیں اور انہیں جس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وکرما سنگھے کیلئے بھی آئندہ سفر مشکل ہوگا اور انہیں بہت زیادہ امیدیں باندھنے کی بجائے حقیقت پسندی کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرنا ہوگا ۔ وکرما سنگھے ویسے تو ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ انہیں حکومت چلانے کا وسیع تجربہ بھی ہے ۔وہ وزیراعظم سمیت کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیںاور گوٹابایا راجہ پکشے کے فرار ہوجانے کے بعد سے وہی کارگذار صدر کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے حالانکہ احتجاجیوں کے مطالبہ کو دیکھتے ہوئے انہیں وزارت عظمی کے عہدہ سے استعفی پیش کرنا پڑا تھا ۔ گوٹابایا راجہ پکشے کے حامیوں میں وکرما سنگھے کا شمار ہوتا ہے اور احتجاجی اسی بات سے ان سے ناراض بھی تھے ۔ احتجاجیوں نے ہی وکرما سنگھے کو کارگذار وزارت عظمی سے مستعفی ہونے کیلئے مجبور کیا تھا ۔ مسٹر وکرما سنگھے حالانکہ حکومت چلانے کا اچھا تجربہ رکھتے ہیں لیکن ان کیلئے مشکل یہی ہے کہ وہ راجہ پکشے خاندان کے وفاداروں میںشمار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ جو برہم احتجاجی حکومت کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے ہیں ان کے تعلق سے وکرما سنگھے کا رویہ سخت گیر رہے گا ۔ انہوںنے کارگذار صدارت سنبھالتے ہی احتجاجیوںکے خلاف سخت کارروائی کرنے کا اختیار پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیوںکو دیدیا تھا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ملک میں ایمرجنسی کی مدت میں بھی توسیع کردی تھی ۔ ان کے سخت گیر اقدامات کو ملک کے عوام پسند نہیں کر رہے ہیں اور وکرما سنگھے سے ان میںشدید ناراضگی بھی پائی جاتی ہے ۔
یہ صورتحال وکرما سنگھے کی گھریلو مشکلات ہیں اور عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے انہیں بہت کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ انہیں بیرونی محاذ پر بھی کئی گوشوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنی پڑے گی ۔ خاص طور پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور دیگر اداروں کے ساتھ انہیں خوشگوار مراسم کے علاوہ اعتماد کو بڑھانے کیلئے اقدامات کرنے ہونگے ۔ ملک کی جو معاشی صورتحال ہے اس نے عوام کو برہم کردیا تھا ۔ جو مشکلات آج سری لنکا کو درپیش ہیں ان کو راتوںرات ختم نہیں کیا جاسکتا اور اس کیلئے ایک طویل اور بے تکان جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ہو یا پھر دوسرے مالیاتی ادارے ہوں ان میں سری لنکا کی معیشت کی بحالی کیلئے اعتماد پیدا کرنا ہوگا ۔ یہ اعتماد اسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب ان کی کچھ شرائط کو تسلیم کرلیا جائے ۔ جوشرائط عائد کی جائیں گے وہ آسان نہیںہونگی ۔ ان کا بوجھ سری لنکا کے عوام پر مرتب ہوگا اور عوام یہ بوجھ برداشت کرنے کے متحمل نہیںہیں۔ عوام کو مہنگائی نے بری طرح متاثر کر رکھا ہے ۔ بے تحاشہ قیمتوںپر بھی ضروری اشیا دستیاب نہیں ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو سری لنکا کی مدد کیلئے تیار کرنا آسان نہیںہوگا اور اسی معاملے میں نئے صدر وکرما سنگھے کا اصل امتحان ہوگا ۔ معاشی صورتحال مستحکم نہیں ہوگی تو پھر عوام کی ناراضگی اور برہمی کو دور نہیں کیا جاسکے گا ۔
وکرما سنگھے کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنے وسیع تر تجربہ کو کام میں لائیں۔ ملک کی پائی جانے والی ناراضگی کو دور کرنے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروںکو مطمئن کرنے کیلئے توازن برقرار رکھنے والے اقدامات کریں۔ جس طرح ملک کے عوام کی ناراضگی کو دورکرنا ضروری ہے اسی طرح بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو اعتماد میں لینا بھی ضروری ہے ۔ اگر یہ توازن کسی بھی مرحلے میں بگڑ جاتا ہے تو پھر آگے کا سفر اور بھی مشکل ہوسکتا ہے ۔ یہ صورتحال ایسی ہے جس میں وکرما سنگھے کو سبھی جماعتوںکو اعتماد میں لینا ہوگا اور عوام کے تعلق سے سخت گیر رویہ میںنرمی پیدا کرتے ہوئے ان میں حکومت کے تعلق سے اعتماد بحال کرنا ہوگا ۔