سفید فام بالادستی اور ہندو قوم پرستی میں یکسانیت

   

…امجد خان …
سفید فام بالادستی اور ہندو قوم پرستی کی مشترک بنیادیں ہیں جو 19 ویں صدی کے نظریہ ’آریائی نسل‘ سے جاملتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں بالخصوص ڈونالڈ ٹرمپ کی 2016ء کے امریکی صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد سارے یورپ اور امریکہ میں سفید فام بالادستی، حد سے زیادہ قوم پرستی پر مبنی دائیں بازو کی سیاست کا پھیلاؤ اور عروج دیکھنے میں آرہا ہے۔ جہاں دائیں بازو کی طرف حد درجہ جھکاؤ نے دنیا بھر میں کئی گوشوں کو تشویش میں مبتلا کیا ہے، وہیں ٹرمپ دور کے حد سے زیادہ دائیں بازو والے نظریات کو تیزی سے حمایت ایک غیرمتوقع مقام سے حاصل ہوئی، جو ہندوستان ہے۔
نام نہاد ’’کٹر دائیں بازو‘‘ (امریکی پاپولسٹ پارٹی، سفید فام بالاستی کے حامیوں، سفید فام قوم پرستوں اور نئے نازیوں کا کمزور مخلوط) کے کئی ارکان ہندوستان کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ اپنے نسل پرستانہ، غیرملکیوں سے نفرت پر مبنی اور انتشارپسندانہ افکار کیلئے تاریخی اور عصر حاضر کی واجبیت و معقولیت تلاش کرسکیں۔ خصوصیت سے ’’سفید قوم پرست‘‘ نوعیت کی مشرقی تہذیب کو استعمال کرتے ہوئے انھوں نے نسلی طور پر خالص سماج کے تعلق سے اپنے خیالی افکار کو ہندوستانی ثقافت کیلئے پیش کیا اور جواب میں ہندوستان میں ہندو بنیاد پرستوں کی طرف سے پرجوش خیرمقدم حاصل کیا۔ اگرچہ کٹر ہندو دائیں بازو اور جارحانہ مغربی دائیں بازو کے درمیان اتحاد بظاہر حیران کن معلوم ہوسکتا ہے، لیکن درحقیقت اس کی طویل تاریخ ہے، جو آریائی نسل کی شناخت بنانے کے دور سے جاملتی ہے، جو اوائل 20 ویں صدی میں نازیت کی نظریاتی بنیادوں میں سے ہے۔ 1930ء کے دہے میں جرمن قوم پرستوں نے 19 ویں صدی کے نظریہ کو اپنایا کہ یورپی اور ہندوستان کے سنسکرت بولنے والے حقیقی لوگ جنھوں نے نہایت ترقی یافتہ سنسکرت تہذیب کو بڑھاوا دیا(جسے سفید فام بالادستی کے حامی خود اپنی تہذیب باور کرانا چاہتے تھے) وہ دونوں مشترک ہند۔ یورپی نسل یا آریائی جد اعلیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے نسل پرستانہ نظریہ کو اس ’’خالص‘‘ نسل کی نام نہاد برتری پر آگے بڑھایا۔

فرانسیسی ۔ یونانی مفکر ساوتری دیوی نے اس خیال کو مقبول کرنے میں مدد کی کہ تمام تہذیبوں کی جڑیں ہندوستان میں موجود آریائی ’’غالب نسل‘‘ سے ملتی ہیں۔ ساوتری نے اوائل دہا 1930ء میں ہندوستان کا سفر کیا تاکہ ’’آریائی کلچر کا منبع دریافت کرسکے‘‘ اور اسی سفر کے دوران ہندومت اختیار کرلیا۔ ساوتری نے فوری خود کو ہندوستان کی تیزی سے پھیلتی ہندو قوم پرستانہ تحریک سے مربوط کرتے ہوئے ایسے نظریات کو فروغ دیا جو ملک میں مراعات کی حامل ہندو ذات کی عیسائیوں، مسلمانوں اور مراعات سے محروم ہندو ذاتوں پر فوقیت کی حمایت کرتے ہیں۔ 1940 ء میں ساوتری نے اسیت کرشنا مکرجی (ہندو قوم پرست اور نازیت کے حامی) سے شادی کرلی۔ اسیت مکرجی کو ہٹلر یوتھ اور ہندو قوم پرستی کی یوتھ موومنٹ ’راشٹریہ سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) کے مقاصد کے درمیان کافی یکسانیت معلوم ہوئی۔

ساوتری نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستان میں ’’ایکسیس فورسیس‘‘ (جرمنی، اٹلی اور جاپان)کیلئے جاسوسی کرتی رہی اور نازی جرمنی کی شکست کے بعد برٹش۔ انڈین پاسپورٹ پر ملک چھوڑ دیا۔ ساوتری کا ہندوستان میں ہندو قوم پرست تحریک پر ہنوز گہرا اثر ہے۔ اپنے 1939ء کے کتابچہ بعنوان ’اے وارننگ ٹو دی ہندوز‘ میں وہ ہندوستانی قوم پرستوں کو متنبہ کرتی ہے کہ اپنی ہندو شناخت کو عزیز رکھیں اور ملک کی ’’غیرآریائی‘‘ اثرات کے خلاف حفاظت کریں، جیسے اسلام اور عیسائیت۔ یہ کتابچہ ہنوز ہندو قوم پرستوں میں وسیع طور پر پڑھا جاتا ہے اور اس کا اونچا مقام ہے۔
تاہم مغرب میں کٹر دائیں بازو کے گروپوں اور ہندو قوم پرستوں کے درمیان موجودہ ربط نہ ساوتری کے افکار تک محدود ہے اور نا ہی آریائی نسل کا قدیم وہمی نظریہ سے متاثر ہے۔ آج، دونوں گروپ اپنی متعلقہ مملکتوں کے سکیولر کردار کو ختم کرنا مشترک مقصد رکھتے ہیں بلکہ مسلم اقلیتوں کی شکل میں مشترک ’’دشمن‘‘ بھی رکھتے ہیں۔ امریکہ میں ریپبلکن ہندو کوالیشن (ہندوستان میں ہندو قوم پرستانہ تحریک سے مضبوط روابط کا حامل گروپ) صدر ٹرمپ کی متنازع ایمگریشن پالیسیوں جیسے مسلم امتناع اور سرحدی دیوار کے پس پردہ پُرجوش حمایت کرتا رہا ہے۔ ٹرمپ کی مہم کے حکمت ساز اور ممتاز کٹر دائیں بازو کی شخصیت اسٹیو بیانن نے ایک مرتبہ ہندو قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی کو ’’ریگن آف انڈیا‘‘ کہا تھا۔ ہندوستان میں کٹر ہندو قوم پرست گروپ ’ہندو سینا‘ جو ہندوستان میں سلسلہ وار فرقہ وارانہ واقعات سے جڑا ہے، وہ ٹرمپ کی سالگرہ پر پارٹیوں کا اہتمام کرتا آرہا ہے۔ اس گروپ کے بانی نے یہاں تک دعویٰ کردیا کہ ’’ٹرمپ ہی واحد شخصیت ہیں جو انسانیت کو بچاسکتا ہے‘‘۔
نومبر میں قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) زیرقیادت حکومت اترپردیش نے ایودھیا میں لارڈ رام کا مجسمہ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جہاں تاریخی بابری مسجد کو 1992ء میں ہندو قوم پرستوں نے غیرقانونی طور پر منہدم کردیا تھا۔ صرف ایک ماہ قبل حکومت نے زبردست نظارے کا اہتمام کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے ذریعے رام اور سیتا کی مانند لباس میں ملبوس افراد کو بابری مسجد کے مقام پر اُتارا جو دیوالی تقاریب کے آغاز کا نقیب ہے۔ مسلمانوں کو خائف کرنے اور دونوں برادریوں کے درمیان کشیدگیوں میں اضافہ کرنے کی یہ واضح کوششوں کے پس پردہ مقصد کئی طرح سے اُس کٹر دائیں بازو والے سفیدفام بالادستی کے حامل نظریہ سے مشابہ ہے جس نے 2017ء میں شارلٹسویل کو دہلا ڈالا تھا۔ نئے نازیوں (دوسری جنگ عظیم کے بعد والے) نے نعرہ بلند کیا ’’تم ہماری جگہ نہیں لے سکوگے‘‘ جس کے ساتھ وہ شارلٹسویل کی سڑکوں پر مارچ کرتے رہے۔ کٹر دائیں بازو کو امریکہ، یورپ اور کناڈا میں انتخابی کامیابی سے بڑا حوصلہ ملا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں ہندو قوم پرستوں کو 2014ء میں بی جے پی کی بڑی انتخابی کامیابی سے طاقت حاصل ہوئی، اور وہ یورپی نسلی قوم پرستی اور فسطائیت سے متاثر ہوکر ہندوستانی مملکت کے دستوری سکیولرازم کو مسترد کرنے لگے، یہ کہنے لگے کہ ہندوستان بنیادی طور پر ہندو قوم ہے، اور زور دینے لگے کہ اقلیتیں بالخصوص مسلمان اور عیسائی ’’ہندو ملک‘‘ سے میل نہیں کھاتے ہیں۔
جب سے مغرب میں کٹر دائیں بازو کے نظریات عام ہونا شروع ہوئے، سارے امریکہ اور یورپ میں نسل پرستانہ، مخالف سامی اور اسلام سے خوف پر مبنی حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہی کچھ ہندوستان میں ہوا جب ہندوتوا باضابطہ ملک میں حکمران نظریہ بن گیا۔ گزشتہ چند برسوں میں بے شمار مسلمان، عیسائی اور نچلی ذات والے ہندوؤں کو محض مبینہ طور پر گایوں کو کاٹنے پر ایذا دی گئی، ان پر حملے کئے گئے اور حتیٰ کہ ہلاک کردیا گیا ، اور مسلمانوں کو نام نہاد ’’لوو جہاد‘‘ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی پاداش میں نشانہ بنایا گیا۔
تاہم، ان تمام مشابہتوں کے باوجود ہندوستان میں ہندو قوم پرستی اور مغرب میں کٹر دائیں بازو کی تحریکات کے درمیان ایک بڑا فرق ہے، جو اس پر نرم ردعمل ہے۔ جہاں آزاد خیال گوشے اور بائیں بازو والے کٹر دائیں بازو کے عروج کے خلاف تیزی سے متحد ہوئے، وہیں انھوں نے دنیا کی سب سے بڑی سکیولر جمہوریت میں ہندو قوم پرستی کے عروج کو بڑی حد تک نظرانداز کردیا۔ خاص طور پر پٹس برگ یہودی عبادت گاہ پر فائرنگ کے بعد مخالف سامیت سے اسلام سے خوف تک تمام اقسام کی نسل پرستی کو شامل کرتے ہوئے مخالف فسطائیت سماجی دھارے کو وسعت دینے کی ضرورت پر کئی گوشوں نے زور دیا۔ تاہم، ہندو قوم پرستی کی مخالفت ابھی تک وسیع تر تحریک کا حصہ نہیں بنائی گئی ہے، حالانکہ بی جے پی کی حکمرانی میں ہندوستانی اقلیتوں کی تکلیف باضابطہ محفوظ ہے۔ اس کی بجائے اس خیال کو زیادہ تر لبرلس کی جانب سے قبول کیا جارہا ہے کہ انڈیا ’’ہندو قوم‘‘ ہے۔ اس حقیقت کو نظرانداز کیا جارہا ہے کہ ہندوستان کا دستور اس مملکت کی تشریح ’’سکیولر‘‘ کے طور پر کرتا ہے، اور ہندو قوم پرستی کو خیرخواہ تحریک کے طور پر پیش کیا جارہا ہے حالانکہ اس کے مغائر معقول ثبوت موجود ہے۔٭