حیدرآباد۔ مرکز نے جمعہ(28مئی) کے روز ریاست گجرات‘ چھتیس گڑھ‘ راجستھان‘ ہریانہ اورپنجاب کے 13اضلاعوں کے ضلع مجسٹریٹوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ افغانستان‘ بنگلہ دیش اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے اقلیتی طبقات کو راجسٹریشن /نیچرلائزیشن کے لئے دائر درخواستوں کی مناسبت سے شہریت کی اجرائی عمل میں لائیں۔
اس کی بنیادی مطلب یہ ہے کہ ان ممالک سے آنے والے مسلم مہاجرین کو اس طرح کی درخواست دینے کی اجازت نہیں ہے۔ وہیں مرکزی حکومت جس کی قیادت وزیراعظم نریندر مودی کررہے ہیں نے 2019میں شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) کو منظور کیاتھا تاکہ بنیادی طور پر اسی کام کو پورا کیاجاسکے’قوانین کے قواعد کو وزرات داخلی امور نے مطلع نہیں کیاہے۔
مرکز کے اقدام پر جہد کار ساکت گھوکھلے بھی سوال اٹھایا اور ایم ایچ اے کو ایک نوٹس ارسال کرتے ہوئے استفسار کیاہے کہ شہریت قانون 1955کے دفعہ5اور 6کے تحت کس طرح صرف غیرمسلم تارکین وطن ہی شہریت کی درخواست کے لئے مدعو کئے گئے ہیں۔انہوں نے ٹوئٹر پر کہاکہ ”سی اے اے کے لئے قواعد اب تک بنے ہیں نہیں ہے لہذا یہ لاگو نہیں ہوسکتا ہے“۔
سنٹر کے28مئی کے اعلامیہ کے مطابق ہندوستان میں ا س وقت مقیم افغانستان‘ بنگلہ دیش او رپاکستان کے تارکین وطن(اقلیتی طبقات سے) غیر مسلم کی فطرت سازی کے ضمن میں ایک گائیڈ لائنس جاری کئے گئے ہیں۔
گوکھلے نے یہ بھی کہاکہ نیا اعلامیہ ”خراب مذہبی امتیاز‘ کا ایک واضح معاملہ ہے۔ انہوں نے اس مسلئے کو اجاگر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیاکہ”اس طرح کی درخواستوں کو کن خطوط پر ہوم منسٹری مدعو کررہی ہے؟۔
شہریت ترمیمی قانون کے قواعد کو ابھی قطعیت نہیں دی گئی ہے۔ لہذا یہ سی اے اے کے تحت نہیں ہے۔ لیکن یہ خالص مذہبی امتیاز ہے۔ مہربانی فرماکر اپنا ای میل چیک کریں پی ائی بی ہوم افیسر۔ ہم بات کرنا چاہتے ہیں“
مذکورہ مودی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں سی اے اے کی منظوری کے نتیجے میں مسلمانوں اور دیگر کا ملک بھر میں شہریت پر تشویش کے پیش نظرمہینوں تک احتجاج جاری رہا‘ جس کا ماننا ہے کہ برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کا مذکورہ کمیونٹی کے خلاف خصوصی امتیاز کے لئے اس قانون کو منظور دی گئی ہے
۔ وہیں بعض کا ماننا ہے کہ آسام میں بنگلہ دیشی ہندو بنگالیوں کو شہریت کے لئے اس کو فطری بنایاگیاہے‘ جبکہ بغض کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کے مقصد سے روبعمل لایاجانے والا برسر اقتدار پارٹی کا یہ پلان ہے۔
وہیں سی اے اے میں ہندوستانی مسلمانو ں کے متعلق بات نہیں کی گئی ہے‘ اس کا اثر قومی رجسٹرار برائے شہریت(این پی آر) میں دیکھائی دیتا ہے‘ بی جے پی جس پر کام کرنا چاہتی ہے۔بنیادی طور پر اگر کوئی اپنی رہائش کے دستاویزات اپنی قومیت کے دستاویزات پیش کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو اس کی شہریت پر سوال اٹھائے جاسکتا ہے۔
تاہم ہندوستان جیسے ملک میں جہاں پر پیدائش کاصداقت نامی کچھ سالوں قبل معمول پر آیاہے‘ وہاں پر تمام لوگوں کے ساتھ سب چیزیں درست ہونے کی توقع بہت ہی کم ہے۔مرکز او رسی اے اے کے خلاف خواتین کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ دہلی کے شاہین باغ میں منعقد ہوا تھا جہاں پر مسلسل احتجاجی مظاہرے جاری رہے ہیں۔
پچھلے سال شمال مشرقی دہلی میں پیش آنے والے فسادات کے تار بھی اس احتجاج سے جڑے گئے ہیں‘ جس کے بعد ہندوستان میں کویڈ19وباء کا قہر ٹوٹ تھا۔
سی اے اے کے خلاف احتجاج تقریبا ملک کے ہر شہر میں منعقدہوا تھا‘ جس میں بڑے تعلیمی اداروں کے طلبہ بشمول ائی ائی ایم اے(احمد آباد) کے طلبہ بھی شریک ہوئے تھے۔