سنہرے تلنگانہ میں مسلمانوں کی حالت ِزار

   

سدھیر کمیشن کے پیش کردہ حقائق
٭ 85% مسلمان خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔
٭ 16% مسلم بچے اسکولس میں داخلہ ہی نہیں لیتے۔
٭ 35% مسلمان بچے اسکول سے ہی ترک تعلیم کررہے ہیں۔
٭ 3% مسلمان طلبہ ہی کالجس میں داخلہ لے رہے ہیں۔
٭ 85% طلبہ اعلیٰ تعلیم کے دوران ترک تعلیم کررہے ہیں۔
٭ 7% مسلمان ہی سرکاری ملازمین ہیں۔
٭ 26% مسلمان قیدی ریاست کے جیلوں میں قید ہیں۔
٭ 4 لاکھ مسلمان حصول روزگار کیلئے بیرونی مالک میں ہیں۔
٭ 43% مسلمان کے پاس ذاتی مکانات نہیں ہیں۔
٭ 75% مسلمان خود روزگار کے ذریعہ گھر چلاتے ہیں۔
٭ 1% مسلم ریسرچ اسکالرس ہی یونیورسٹیز میں ہیں۔
مسلمانوں کی ترقی کیلئے فوری
درج ذیل اقدامات کئے جائیں
٭ مسلم آبادیوں میں ہائی اسکولس کا قیام
٭ مائناریٹی اسٹڈی سرکل کا قیام
٭ ریسرچ اسکالرس کیلئے ریسرچ سنٹر کا قیام
٭ دینی مدارس میں مڈ ڈے میل کا آغاز
٭ مائناریٹی سب پلان کا آغاز
٭ مسلم بندھو اسکیم کا آغاز
٭ ڈائریکٹ سبسڈی لونس کی منظوری
٭ ڈبل بیڈ روم مکانات میں خصوصی کوٹہ
٭ ڈرائیور امپاورمنٹ کوٹہ میں اضافہ
٭ خود روزگار اسکیم کے تحت 10 لاکھ روپیوں کی منظوری۔

سید سلیم پاشا
حصول تلنگانہ کے مرحلہ اول کی جدوجہد میں 1200 افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ کئی مسلمانوں نے جدوجہد علیحدہ ریاست تلنگانہ میں حصہ لیتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے مقدمات کا سامنا کیا تو کئی مسلمانوں نے جدوجہد کو آگے بڑھانے کیلئے زبردستی معاشی تعاون بھی کیا اور مسلمانوں کی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت کے سی آر نے مسلمانوں کیلئے کئی ایک وعدے بھی کئے تھے۔ یہاں تک کہ جدوجہد کا مرکزی ستون ہی ریاست کا وزیراعلیٰ بن جانے کی وجہ سے مسلمانوں میں اس بات کی امید جاگ گئی تھی کہ ان سے کئے گئے وعدے وفا ہوں گے مگر گزشتہ 7 سال میں کے سی آر کی جانب سے کئے گئے وعدے وفا نہ ہوسکے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ اقتدار میں چاہے کونسی بھی پارٹی آئے وہ صرف مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر ہی استعمال کرتی ہے۔
واضح ہوکہ 2004ء کے انتخابات کے موقع پر کے سی آر نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہیں اقتدار حاصل ہوتا ہے تو وہ 4 ماہ کے اندر انہیں تعلیم اور ملازمتوں میں 12% تحفظات فراہم کریں گے اور جدید تشکیل شدہ ریاست میں کے سی آر زیرقیادت ٹی آر ایس کی حکومت وجود میں آئی۔ بعدازاں مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی، سیاسی اور معاشی حالات کا جائزہ لینے کیلئے کے سی آر حکومت نے 3 مارچ 2015ء کو ڈاکٹر سدھیر کمیشن کا قیام عمل میں لایا اور اس کمیشن نے 14 ماہ تک باریک بینی سے مسلمانوں کے حالات زار کا جائزہ لینے کے بعد 12 اگست 2016ء کو اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی اور کمیشن نے رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ 85% مسلمان سطح غربت سے نیچے کی زندگی گذار رہے ہیں اور فی الحال موجود 4% تحفظات 9% تا 12% کیا جانا چاہئے۔ علاوہ ازیں ریاست تلنگانہ میں قائم کئے گئے اولین بی سی کمیشن نے بھی مسلمانوں کی حالت زار کا زمینی سطح پر بغور جائزہ لینے کے بعد 2017ء میں ایک رپورٹ پیش کی تھی اور بی سی کمیشن نے بھی سفارش کی تھی۔ 4% تحفظات کو 10% تک توسیع دی جائے اور ان کمیشنوں کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے کے سی آر حکومت نے اسمبلی میں 12% تحفظات بل پاس کرکے منظوری کیلئے مرکزی حکومت کو روانہ کیا تھا مگر مگر کے سی آر مرکزی حکومت سے اس بل کی منظوری حاصل کرنے میں برے طرح ناکام رہے۔ حالانکہ مرکزی حکومت کی کئی ایک بلوں کی منظوری کیلئے کے سی آر نے راست یا بالواسطہ بھرپور مدد کی ہے مگر 12% تحفظات کی منظوری مرکزی حکومت سے حاصل کرنے کیلئے کے سی آر نے نیک نیتی سے کام نہیں کیا ہے اور اب کے سی آر دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ بننے کے بعد روز روشن کی طرح واضح ہوچکا ہے کہ انہوں نے 12% تحفظات کو صرف ایک انتخابی حربہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔
سدھیر کمیشن رپورٹ کے مطابق ریاست کے 43% مسلمانوں کے پاس ذاتی مکانات نہیں ہیں اور کے سی آر نے شہری علاقوں میں مسلمانوں کیلئے ڈبل بیڈروم مکانات میں 12% مکانات مختص کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس فیصلے پر بھی مکمل طور پر عمل نہیں کیا جارہا ہے۔ متحدہ ریاست میں سینکڑوں اوقافی اراضی پر قبضے کئے گئے اور جدوجہد علیحدہ ریاست کے موقع پر کے سی آر نے اعلان کیا تھا کہ تشکیل ریاست کے بعد وقف بورڈ کو جوڈیشیل اختیارات دے کر مقبوضہ اراضیات کو دوبارہ واپس لیا جائے گا مگر تاحال اس پر عمل آوری نہیں ہوئی۔
تمام اقلیتی اداروں میں مکمل طور پر نامزد عہدوں کو پُر نہیں کیا جارہا ہے اور نہ ہی ان اداروں کیلئے درکار ملازمین کے تقرر کئے جارہے ہیں۔ یہاں تک اقلیتی تعلیمی اداروں میں مستقل اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے ان اداروں میں داخلہ بھی بہت کم ہورہے ہیں۔ مزید پریشانی کی بات یہ ہے کہ ان اداروں میں کنٹراکٹ بنیاد پر غیرمائناریٹی اساتذہ کا بھاری تعداد میں تقرر کیا جارہا ہے اور نتیجہ میں قابل اقلیتی امیدوار بیروزگاری کا شکار ہیں۔ کے سی آر نے جدوجہد تشکیل ریاست کے موقع پر وعدہ کیا تھا کہ ہر ضلع سے ایک مسلمان کو رکن اسمبلی بنایا جائے گا مگر تاحال ٹی آر ایس کے پاس صرف ایک ہی مسلمان رکن اسمبلی ہے۔