سود معافی ‘ سپریم کورٹ کے ریمارکس

   

مرکزی حکومت کو آج سپریم کورٹ کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے لاک ڈاون کے دوران قرض واپسی پر جو مہلت دی گئی تھی اس مہلت کے دوران سود معاف کرنے کی استدعا کی گئی تھی ۔ سپریم کورٹ میں حکومت کا یہ موقف تھا کہ ایسا کرنے سے تجارت اور بینکس کو نقصان ہوگا ۔ تاہم مرکزی حکومت نے سود معافی کا اعلان نہ کرتے ہوئے عوام کو پیش آنے والی مشکلات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے ۔ حکومت کو ایسا لگتا ہے کہ عوام کو پیش آنے والی مشکلات کا کوئی خیال ہی نہیں ہے اور وہ صرف بڑے تجارتی گھرانوں اور بینکوں کی حالت کے تعلق سے فکرمند ہے ۔ ان بینکوں اور بڑے تاجر گھرانوں کی جانب سے کروڑ ہا روپئے سود وصول کیا جاتا ہے ۔ چار تا چھ ماہ کی مہلت تک اگر سود کو معاف کردیا جائے تو حکومت ان بینکوں اور کاروباری گھرانوں کو پابند بناسکتی ہے تاہم حکومت نے ایسا کرنے سے گریز کرتے ہوئے عوام کو پیش آنے والی مشکلات کو نظر انداز کردیا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ سارے ملک میں لاک ڈاون کی وجہ سے عوام کو دو وقت کی روٹی کا حصول تک بھی مشکل ہوگیا تھا ۔ ایسا نہیں ہے کہ اب حالات بہتر ہوگئے ہیں۔ اب بھی عوام کو حصول روزگار کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ صرف ماہ جولائی میںپچاس لاکھ افراد اپنے روزگار اور ملازمتوںسے محروم ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل اپریل ‘مئی اور جون کے مہینوں میں جو ملازمتیں ختم ہوئیں ان کی تعداد الگ سے ہے ۔ عوام کے چھوٹے موٹے کاروبار تک متاثر ہوگئے ہیں۔ انہیں مزدوری تک ملنی مشکل ہوگئی ہے ۔ اس سب کے باوجود عوام پر سود کا بوجھ عائد کرنے سے حکومت گریز نہیں کر رہی ہے ۔ خانگی بینکس اور تجارتی اداروں کو حکومت اس بات کا پابند بناسکتی ہے کہ وہ مہلت کے ایام کا سود حاصل نہ کریں۔ ان بینکس اور خانگی اداروں کو حکومت عوام کے ٹیکس کے پیسے سے ہی کئی طرح کی مراعات فراہم کرتی ہے اور بینکوں کی جانب سے بڑے تاجروں کے ہزاروں کروڑ کے قرض بھی معاف کردئے جاتے ہیں یا پھر غیر کارکرد اثاثہ جات میں ڈال دئے جاتے ہیں۔

بینکوںاور بڑے کارپوریٹ گھرانوں کو جو سہولیات دی جاتی ہیںوہ سب کچھ عوام کے ٹیکس کے پیسے سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود شائد پہلی مرتبہ جب عوام کو چند مہینوں کی راحت دینے کی بات آئی ہے تو نہ بینکس اس کیلئے تیار ہیں اور نہ حکومت بینکوںپر اثر انداز ہونے کو تیار ہے ۔ سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ حکومت کی جانب سے سارے ملک میں لاک ڈاون نافذ کرنے کی وجہ سے ہوئے ہیں اور حکومت ریزرو بینک کا عذر پیش کرتے ہوئے خود بری الذمہ نہیںہوسکتی ۔ حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ بینکوں کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ عوام پر مہلت کے ایام کا سود عائد کرنے سے گریز کریں۔ حکومت کو اس معاملے میں بینکوں اور بڑے کارپوریٹ اور تاجر گھرانوں کے مفادات کا خیال کرنے کی بجائے عوام کو درپیش مشکلات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کو راحت پہونچانا ہر حکومت کا فریضہ ہے ۔ نریندر مودی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ اس معاملے میں لا تعلقی کا اظہار کرنے اور صرف بینکوں کی صحت کا خیال کرنے کی بجائے عوام کی مالی حالت کو ذہن میںرکھتے ہوئے انہیںچند مہینوں کیلئے راحت فراہم کرنے کے تعلق سے فیصلہ کرے۔ ریزرو بینک ہو یا پھر کچھ دوسرے بینکس ہوں سبھی حکومت کے تحت ہیں اور حکومت ان پر اپنے فیصلوں پر عمل کرنے کیلئے دباو ڈال سکتی ہے ۔ یہ حکومت کو اختیار حاصل ہے اور حکومت کو اپنے اس اختیار کا استعمال کرنا چاہئے ۔

حکومت اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ لاک ڈاون نے سارے ملک کی حالت خراب کردی ہے ۔ عوام خاص طور پر بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ تجارت ‘ روزگار اور ہر طرح کی معاشی سرگرمیاں متاثر ہوگئی ہیں۔ عوام کو دو وقت کی روٹی کے حصول کیلئے آج بھی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے ۔ حکومت کو کم از کم اب سپریم کورٹ کے ریمارکس کو ذہن نشین رکھتے ہوئے بینکوںپر اثرانداز ہونے کی ضرورت ہے ۔ جو تین ماہ کی مہلت دی گئی تھی ان میں مزید تین ماہ کی توسیع کرتے ہوئے چھ ماہ تک کوئی سود عائد کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ حکومت جو امدادی پیاکیجس ہیں ان کے ذریعہ عوام کو راحت فراہم کرسکتی ہے اور بینکوں کی معاشی حالت کو بھی بگڑنے سے بچاسکتی ہے ۔ اس معاملے میں حکومت کو سخت فیصلہ کرنا ہی ہوگا ۔