سورہ فاتحہ تمہید قرآن

   

محمد عبدالقدیر ایڈوکیٹ
قرآن مجید اﷲ کا کلام ہے جو محمد صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم پر بتدریج تقریباً ۲۳ سال میں نازل ہوا ۔ سورہ فاتحہ قرآن کی تمہید ہے جس میں سات آیتیں ہیں یہ مکمل سورۃ ابتدائی زمانہ میں مکہ مکرمہ میں نازل ہوا۔ قرآن کے ہر سورہ سے پہلے اﷲ کا نام لیا جاتا ہے ۔ ہر سورہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتا ہے سوائے سورۃالتوبہ کے۔ (Q.9)
سورہ فاتحہ قرآن کی تمہید اور اساس ہے ۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم اس سورہ کاجز ہے اس کو پہلی آیت شمار کیا جاتا ہے۔سورۃ فاتحہ ہر روز پانچ وقت کی نمازوں میں پڑھا جاتا ہے اس کے علاوہ ہر نماز کی ہررکعت میں پڑھا جاتا ہے ۔ حضرت عبادہ بن السامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺجو بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے اُس کی نماز نہیں ہوتی ۔ ( صحیح بخاری شریف جلد ۵ آیت نمبر۱ )
قرآن مجید کی بے شمار تفسیریں لکھی گئی ہیں ۔ ہندوستان اور پاکستان کے علماء نے بھی اچھی تفسیریں لکھی ہیں ، ان مفسرین نے سورہ فاتحہ کی آخری دو آیتوں میں الْمَغْضُوْبِ اور وَلَاالضَّآلِّيْنَ کے بارے میں کہاہے کہ الْمَغْضُوْبِ وہ لوگ ہیں جن کو اﷲ کا پیغام پہنچا جس کو سمجھنے کے باوجود انھوں نے اس کو رد کردیا ۔ اﷲ کے حکم کی نافرمانی کی اور ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر اﷲ کا غضب ہوا ۔ وَلَاالضَّآلِّيْنَ وہ لوگ ہیں جو سیدھے راستہ سے بھٹک گئے ہیں اور گمراہ ہوگئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن تک یا توسچائی پہنچی ہی نہیں یابگڑی ہوئی شکل میں پہنچی ہے ۔ ان تفسیروں میں واضح طورپر نہیں کہا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں ۔
حکومت سعودی عربیہ کی زیرنگرانی مطبوعہ The Noble Quran English Translation by Dr Mohammed Taqiuddin Al Hilali and Dr Mohammed Mohsin Khan 1419 AH میں اس کی وضاحت کی گئی ہے جس سے شاید بہت کم لوگ واقف ہوں گے ۔ اس سلسلہ میں دوسری اور کتابوں کے مطالعہ کرنے میں جو باتیں میرے علم میں آئی ہیں ذیل میں قارئین کے معلومات کے لئے پیش کررہا ہوں ۔
اِهْدِنَا : سورۂ فاتحہ کی چھٹی آیت میں اِھْدِنَا کا لفظ آیا ہے ۔ ہدایت دو قسم کی ہوتی ہے (۱) توفیق کسی کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمابرداری کا خیال ۔ (۲) ارشاد : ہدایت جواﷲ کے رسول اور دین کی تبلیغ کرنے والوں کی طرف سے ہوتی ہے ۔
اَنْعَمْتَ عَلَيْـهِـمْ: اسی آیت نمبر ۶میں اَنْعَمْتَ عَلَيْـهِـمْ ( جن پر نعمتیں ہوئیں) سے مراد رسولوں ، صدیقین ( وہ جو سب سے پہلے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان لائے جیسا کہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ ، شہداء اور صالحین ہیں۔ سورہ النساء کی آیت نمبر ۶۹ ’’اور جو اﷲ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ اُن کے ساتھ ہونگے جن پر اﷲ تعالیٰ نے اپنا بڑا انعام فرمایا یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ۔ اُن کی رفاقت بھی خوب ہوگی ‘‘۔ (Q4:69)
الْمَغْضُوْبِ عَلَيْـهِـمْ: نہ کہ جس راستہ پر چلنے والوں کو اﷲ تعالیٰ کا غصہ اور قہر ملا ۔ (غضب ، غصہ یا قہر )
وَلَا الضَّآلِّيْنَ: وہ جو گمراہ ہوگئے اور راستہ بھٹک گئے (ضال: گمراہ ، راستہ سے بھٹکا ہوا ) ۔
ڈاکٹر ہلالی اور ڈاکٹر محسن کی متذکرہ قرآن کے ترجمہ اور تفسیر میں انھوں نے لکھا ہے کہ اُوس بن حاتمؓ سے روایت ہے کہ ’’میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سے اﷲ تعالیٰ کے اس بیان کے بارے میں پوچھا (غَيْـرِ الْمَغْضُوْبِ ) تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ وہ یہود ہیں اور (وَلَا الضَّآلِّيْنَ ) تو آپؐ نے فرمایا وہ نصاریٰ ہیں ۔ (یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد میں بیان کی گئی ہے ) ۔
یہودیوں پر غصب کے کئی واقعات میں کئی مرتبہ اسرائیلی اور شہر یروشلم ( فلسطین ) برباد ہوئے ۔ اﷲ کی نافرمانی اور اس کے احکامات کی دانستہ خلاف ورزی پر کئی مرتبہ ان پر اﷲ کا قہر ہوا ۔موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کو کہا ۔ یہودیوں نے ان کے پیغام پر عمل نہیں کیا ۔ انھوں نے کہا ’’ ہم تمہارے کہنے سے ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم خود اﷲ کو علانیہ طورپر نہ دیکھیں ‘‘ ۔ (سورہ بقر آیت نمبر ۵۵)
موسیٰ علیہ السلام کی قوم تمام برائیوں میں مبتلا ہوگئی ۔ شراب پینا ، عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اور ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ انھوں نے بچھڑے کو پوجنا شروع کردیا ، ان پر اﷲ کا غضب ہوا ۔
یہود اور نصاریٰ کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ میں کہا ہے ’’یہود نے کہا عزیر اﷲ کابیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اﷲ کا بیٹا ہے ۔ یہ ان کا قول ہے ان کے منہ سے نکلا ہوا یہ اُن لوگوں کی سی باتیں کرنے لگے ہیں جو اُن سے پہلے کافر ہوچکے ہیں ۔ (Q9:30)
عزیر علیہ السلام کا نام قرآن میں صرف ایک جگہ سورۃ النور کی آیت نمبر۳۰ میں آیا ہے ۔ کسی حدیث میں بھی انکا ذکر نہیں ہے۔ اسرائیلوں کے مجموعہ تورات کے صحیفہ حزفیل کے ( حضرت حزفیل علیہ السلام ) میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں بابل کا حکم نصر بخت بہت طاقتور اور ظالم بادشاہ تھا ۔ اس نے قُرب و جوار کی تمام حکومتوں کو مسخر کرلیا ۔ اس نے فلسطین پر بھی حملہ کرکے فلسطین کو تباہ وتاراج کردیا اور تمام اسرائیلیوں کو قید کرکے انھیں بابل بھیج دیا ۔ ان حملوں میں تورات کے تمام نسخوں کو جلاکر خاکستر کردیا ۔ اسرائیل کے پاس ایک بھی نسخہ محفوظ نہیں رہا ۔ نصربخت کے مرنے کے عرصہ دراز کے بعد بابل کے بادشاہ سائرس نے اسرائیلیوں کو آزاد کیا اور ان کو یروشلم میں ہیکل کی تعمیر کی اجازت دی ۔ اس طرح اسرائیلیوں کو بابل کی اسیری سے نجات ملی اور انھوں نے فلسطین کو دوبارہ آباد کیا ۔ اسرائیل بہت متفکر تھے کہ توارت کیسے حاصل کریںتب عزیر علیہ السلام نے سب اسرائیلیوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے تورات کو اول سے آخر تک پڑھا اور تحریر کرایا ۔ اسرائیلی اس واقعہ سے بہت متاثر ہوئے اور عقیدت مندی میں عزیز علیہ السلام کو اﷲ کا بیٹا مان لیا۔
نصاریٰ عیسی علیہ السلام کو بیٹا مانتے ہیں کیونکہ ان کی ماں بی بی مریم غیرشادی شدہ اور باکرہ عورت تھیں حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی قوم کو اﷲ کی وحدت اور صرف اس کی عبادت کی تعلیم دی ۔ بائبل کی کتاب MARK-12-4 میں لکھا ہے
“He (Jesus) said unto him thou
art not far from th kingdom of god”
ان الفاظ میں عیسیٰ علیہ السلام نے خود تصدیق کی ہے کہ اﷲ ایک ہے اس کے سواء کوئی معبود نہیں ہے جو بھی اس کی وحدانیت پر ایمان رکھتا ہے وہ اﷲ سے قریب ہے ۔ جو اس کے ساتھ شریک کرتا ہے یا تثلیث (Trinity) پر ایمان رکھتا ہے وہ اﷲ سے دور اور اس کے دشمن ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو بھٹکے ہوئے اور گمراہ ہیں۔