سوشیل میڈیا پر بھی کنٹرول

   

مرکز کی نریندر مودی حکومت ملک میں ہر شئے پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے ۔ بی جے پی اور اس کی سوچ سے اتفاق رکھنے والے عناصر نے ملک کے میڈیا کو اپنا اسیر بنالیا ہے ۔ ہندوستان میں میڈیا اب حکومت کے تلوے چاٹنے والے میڈیا کے طور پر شہرت حاصل کر رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی سوچ کے مطابق کام کیا جا رہا ہے ۔ ملک اور عوام کو درپیش انتہائی اہمیت کے حامل اور حساس نوعیت کے مسائل پر مباحث کرنے اور حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کی بجائے میڈیا ایسے مسائل کوموضوع بحث بنانے میں مصروف ہے جن سے نہ ملک کی بہتری ہوسکتی ہے اور نہ عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ایسے مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے جن سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے ۔ ایسے امور کو بھڑکایا جا رہا ہے جن سے عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹ جاتی ہے ۔ ایک اداکار کی موت پر ایک مہینے سے زیادہ عرصہ تک مختلف ٹی وی چینلوں پر ایک سو سے زیادہ مباحث کئے جاتے ہیں اور اس کو ایک مخصوص رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے تاہم ملک کے تقریبا دو کروڑ نوجوان ملازمتوں اور روزگار سے محروم ہوگئے ہیں لیکن اس پر کسی طرح کے مباحث نہیں کئے جاتے۔ اس جانب سوال کرنے والوں کو بھی فرقہ وارانہ مسائل میں الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے کی بجائے ان پر سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اسی طرح اب حکومت میڈیا کے بعد سوشیل میڈیا کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے ہزاروں نوجوانوں کو سوشیل میڈیا کی ذمہ داری دے کر مقرر کردیا ہے اور ان کا کام ہی عوام میں نفاق پیدا کرنا اور حکومت کی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا رہ گیا ہے ۔ گذشتہ ہفتوں سے فیس بک کا مسئلہ چل رہا ہے جس کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ فیس بک کے ذمہ داران بھی بی جے پی سے قربت رکھتے ہیں اور مخالف بی جے پی پوسٹس کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور جو لوگ حکومت کی تائید کرتے ہوئے دوسروں کو نشانہ بناتے ہیں ان پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ یہ سارا مسئلہ بھی فیس بک کی جانبداری اور حکومت کی تائید سے متعلق ہے ۔

ہندوستان میں فیس بک کی ایک ذمہ دار شخصیت کا تعلق بی جے پی سے بتایا گیا ہے اور اب حکومت کے ایک وزیر نے بھی فیس بک کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیس بک کے ذمہ داروں کی جانب سے حکومت پر تنقیدیں مناسب نہیں ہیں۔ یہ در اصل آزادی رائے اور اظہار خیال کی آزادی کو روکنے کی کوشش ہے ۔ ویسے تو حکومت ہر ممکن طریقہ سے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے اور کچلنے کی کوشش میں مصروف ہی ہے اور وہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ۔ حکومت ہر طرح سے اپنا تسلط اور اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی گوشے سے حکومت پر تنقیدیں برداشت نہیں کی جار ہی ہیں۔ جو لوگ تنہا حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں انہیں مقدمات میںماخوذ کیا جا رہا ہے ۔ سیاسی مخالفین کو مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں سے دھمکایا جا رہا ہے ۔ اور سوشیل میڈیا کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھتے ہوئے ایک طرح سے ذہن سازی کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے ۔ ویسے تو اصل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر اپنے زر خرید اینکروں کو بٹھاتے ہوئے یہ کام کئی برسوں سے کیا جار ہا ہے ساتھ ہی سوشیل میڈیا کو بھی اب آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ سوشیل میڈیا پر اکثر و بیشتر حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کیا جا رہا تھا اور شائد یہی بات حکومت کو ہضم نہیںہو رہی ہے ۔ اسی وجہ سے سوشیل میڈیا کو بھی پابندیوں اور اپنے اشاروں پر کام کرنے کیلئے مجبور کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔

ہندوستان ایک جمہوری مل ہے ۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی جمہوریت ہماری ہے اس کے باوجود اگر ہم اپنے ہی ملک کے عوام کی آواز کو دبانے کچلنے اور ان کے احساسات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ہمارے اپنے جمہوری عمل سے مذاق ہوگا ۔ جمہوریت میں عوام کی رائے کو مقدم سمجھا جاتا ہے ۔ اختلاف رائے کا احترام کیا جاتا ہے لیکن موجودہ حالات میں اس کے برخلاف کام کیا جا رہا ہے اور حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے اور جی حضوری کرنے والوں کا ہی بول بالا کیا جا رہا ہے ۔ ہر طرح سے اظہار خیال کی آزادی کو دبایا اور کچلا جا رہا ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ ہماری جمہوریت کو مستحکم اور مضًوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ دستور اور قانون کے دائرہ میں ہونے والے اختلافات کا احترام کیا جائے ۔