سوشیل میڈیا پر کنٹرول کی کوشش

   

ہندوستان میں سوشیل میڈیا ایک اہم پلیٹ فارم بن کر ابھر اہے ۔ ویسے تو ساری دنیا میںسوشیل میڈیاکی اہمیت میںاضافہ ہوا ہے لیکن جہاں تک ہندوستان کی بات ہے تو یہاں انفارمیشن ٹکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے زندگی کے کئی شعبوںپر مثبت اور منفی دونوںہی طرح کے اثرات مرتب کئے ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے معاملے میں ہندوستان عالمی قائد کی حیثیت بھی اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ کئی ممالک میںانفارمیشن ٹکنالوجی کے شعبہ میں ہندوستانی ماہرین کی خدمات کا اعتراف کیا جا رہا ہے اور اعلی ترین عہدوںپر ہندوستانیوں کو فائز کیا جا رہا ہے ۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کی ترقی نے سوشیل میڈیا کو جگہ فراہم کردی ۔ جس طرح سے ملک میں میڈیا میں ڈرامائی اور تیز رفتار تبدیلیاںآئی ہیںوہیں سوشیل میڈیا کی اہمیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ملک میںمیڈیا اب ایک پیشے کی بجائے ایک صنعت کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔ میڈیا کوایک سماجی ذمہ داری نبھانے کا ذریعہ بنانے کی بجائے سیاسی چاپلوسی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے ۔ عوام کے حقوق یاد دلانے اور ان کے مسائل کی حکومتوں سے نمائندگی کرنے کی بجائے حکومتوں کے موقف کو عوام کے ذہنوںپر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ملک میں حکومت اور برسر اقتدار جماعت سے سوال کرنے کی بجائے اپوزیشن کو نشانہ بنانے کا سلسلہ سا چل پڑ ا ہے ۔ حکومت سے سوال کرنے یا اس سے اتفاق نہ کرنے والوںکو نشانہ بنانے کی ایک نئی روایت ملک میں عام ہوگئی ہے ۔ اس معاملے میں میڈیا کو بھی بخشا نہیں جا رہا ہے۔ ویسے تو میڈیا کا ایک بڑا حصہ حکومت کی چاپلوسی اور تلوے چاٹنے میں ہی لگا ہوا ہے اور اپنے اپنے گلے میں غلامی کے تمغے پہنے جا رہے ہیں لیکن کچھ میڈیا گھرانے اب بھی حکومت کو اس کی ناکامیوں کا احساس دلانے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔ اس دور میںسوشیل میڈیا نے اپنی جگہ اہمیت منوالی ہے ۔ سوشیل میڈیا میں عوام خود اپنے مسائل کو پیش کرنے لگے ہیں۔ حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کیا جانے لگا ہے ۔ اس سے سوال پوچھے جانے لگے ہیں اور میڈیا میں جن حقائق کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے ان کو عوام کے سامنے لایا جا رہا ہے ۔
ایک روایت یہ بھی بن گئی ہے کہ حکومت کو اس کی ذمہ داری یاد دلانے والوںکے خلاف مقدمات تک درج کروائے جا رہے ہیں۔ انہیں جیلوں کی ہوا کھلائی جا رہی ہے ۔ اترپردیش میں ایک وزیر کو ان کے انتخابی وعدے یاد دلانے پر جیل بھیج دیا گیا تھا ۔ اسی طرح کئی مثالیں موجود ہیں جہاں حقیقی صحافیوںکو نشانہ بناتے ہوئے جیل بھیجا گیا تھا ۔ یہ تو اصل میڈیا کے ساتھ رویہ رہا تاہم جب سے سوشیل میڈیا کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے اور سوشیل میڈیا پر حقائق کو پیش کیا جانے لگا ہے اس وقت سے ہی حکومت اس کے خلاف منصوبے بنانے میں مصروف ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ سوشیل میڈیا پر کنٹرول کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے نتنئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ پہلے تو سوشیل میڈیا پر کنٹرول کیلئے قانون بنایا گیا تھا ۔ اب اس قانون میں مزید ترامیم کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ حکومت کا دعوی ہے کہ وہ حقائق کی جانچ کرنے کے مقصد سے اس طرح کی ترامیم کا منصوبہ رکھتی ہے اور اس کے کوئی پوشیدہ عزائم نہیںہیں۔ تاہم اپوزیشن اوردیگر طبقات کو اندیشہ ہے کہ حکومت اپنے خلاف اٹھنے والی مخالفانہ آوازوں کو دبانے کے مقصد سے سوشیل میڈیا کو بھی راڈار میں لاناچاہتی ہے ۔ سوشیل میڈیا میں جس طرح سے عوامی مسائل کو پیش کیا جا رہا ہے اور جس طرح سے حقائق کو آشکار کیا جا رہا ہے اس سے کچھ گوشے متفکر ہیں۔ وہ عوام کو محض ایک احساس میںرکھنا چاہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے ۔ اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے حقیقی مسائل تک عوام کی توجہ نہیں ہونے پائے ۔
جو مثالیں ملک میں موجود ہیں ان میں دیکھا گیا ہے کہ حکومت کو محض ان کی ذمہ داری یاد دلانے کا فریضہ بھی ادا کیا گیا تو قانونی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اس طرح سوشیل میڈیا کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اب اس کو بھی قابو میں کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ سوشیل میڈیا میں پھیلائے جانے والے جھوٹ کو روکنا ضروری ہے اور اس پر نظر رکھی جانی چاہئے تاہم اس کے بہانے سے حقائق کو دبانے اور پردہ پوشی کرنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے ۔ میڈیا اور خاص طورپر آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کسی بھی ملک اور اس کی جمہوریت کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اوراس حقیقت کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چاہئے۔