سوشیل میڈیا کی ذمہ داریاں و جوابدہی

   

ہمیں کیا جو ہر سو اُجالے ہوئے ہیں
کہ ہم تو اندھیروں کے پالے ہوئے ہیں

کسی بھی سماج میں سوشیل میڈیا نے اب انتہائی اہم مقام حاصل کرلیا ہے ۔ یہ کئی مواقع پر ملک کے اصل میڈیا سے بھی آگے بڑھ کر عوام کی تائید و مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے ۔ سوشیل میڈیا نے سماج میں کئی مثبت پہلو چھوڑے ہیں اور اصل میڈیا کی ناکامیوں کو تک اجاگر کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ اصل میڈیا میں جن مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ان کو عوام کے درمیان لانے میں سوشیل میڈیا ان دونوں اہم ترین رول ادا کر رہا ہے ۔ تاہم ایک پہلو اس کا منفی بھی ہوتا جا رہا ہے ۔ کچھ مخصوص عناصر اور تنخواہ پانے والے کارکن سوشیل میڈیا کا غلط اور بیجا استعمال کرتے ہوئے مخالفین کو نشانہ بنانے ‘ کسی کی عزت سے کھلواڑ کرنے ‘ غلط اور گمراہ کن پروپگنڈہ کرنے ‘ سماج میں نفرت پیدا کرنے ‘ ماحول کو کشیدہ کرنے ‘ مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا سلسلہ تو بہت تیزی سے چل رہا ہے ۔ ملک کی تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے من مانی کہانیوں کو تاریخ کا حصہ بنایا جا رہا ہے ۔ نوجوانوں اور طلبا کے ذہن سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔ انہیں حقائق سے واقف کروانے کی بجائے ان کے ذہنوں کو زہر آلود کیا جا رہا ہے ۔ ملک بھر میں مخصوص طبقات کے خلاف ماحول پیدا کرنے کیلئے منظم کوششیں اور سازشیں ہو رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہر ایک کو اظہار خیال کی آزادی دی گئی ہے ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جس دستور اور قانون میں اظہار خیال کی آزادی دی گئی ہے اسی دستور و قانون میں کسی کے مذہب کو نشانہ بنانے سے بھی روکا گیا ہے ۔ ہمیں دونوں ہی باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔ کسی کی دلآزاری کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہے ۔ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچانے یا ماحول کو پراگندہ کرنے کیلئے سوشیل میڈیا کا استعمال کرنا انتہائی مذموم فعل ہے اور اس سے سبھی گوشوں کو احتراز کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج سوشیل میڈیا کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سوشیل میڈیا کی ٹیمیں تیار کرلی گئی ہیں۔ انہیں تنخواہیں ادا کرتے ہوئے نفرتوں کا بازار گرم کرنے کا کام لیا جا رہا ہے ۔
سوشیل میڈیا کے ذریعہ سماج کی برائیوں کے خلاف مہم چلائی جاسکتی ہے ۔ حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کیا جاسکتا ہے ۔ عوام کے حقوق کیلئے مہم چلائی جاسکتی ہے ۔ سماجی برائیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے ۔ تعمیری انداز میں تنقید بھی کی جاسکتی ہے لیکن اسے شخصی نہیں بنایا جانا چاہئے ۔ کسی کو شخصی طور پر نشانہ بنانے کی بجائے تعمیری انداز اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ حکومتوں اور قائدین کو مشورے دئے جاسکتے ہیں۔ انہیں عوامی نبض سے واقف کروایا جاسکتا ہے ۔ ملک کے تاریخی اور تہذیبی ورثہ سے نوجوانوں اور طلبا کو واقف کروایا جاسکتا ہے ۔ بچوں کی تعلیم کے حق کے تعلق سے شعور بیدار کیا جاسکتا ہے ۔ عوامی مسائل کو موثر انداز میں حکومتوں اور ذمہ دار حکام کے علم میںلایا جاسکتا ہے ۔ اس کے ذریعہ تجارت اور روزگار کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے تاہم ان سب کیلئے شرط یہی ہے کہ سوشیل میڈیا کا مثبت انداز میں استعمال کیا جائے ۔ سماج کی بھلائی اور فائدہ کو یقینی بنانے کیلئے اس کا استعمال کیا جائے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج اس کا مکمل منفی انداز میںا ستعمال ہو رہا ہے ۔ سوشیل میڈیا پر ’’ ٹرول ۔ آرمی ‘‘ تیار کرلی گئی ہے جو دوسروں کو نشانہ بنانے کیلئے تنخواہیں پاتی ہے ۔ سماج کو پراگندہ کیا جا رہا ہے ۔ شخصی تنقیدوں کے ذریعہ کسی کی عزتوں سے کھلواڑ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا ہے ۔ نوجوان خاص طور پر اس کو تعمیری انداز میں استعمال کرنے کی بجائے تنقید اور منفی سوچ کے ساتھ اس کا استعمال کیا جا رہا ہے جس کے معاشرہ پر منفی اثرات ہی مرتب ہو رہے ہیں۔
سوشیل میڈیا عوام کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعہ کسی جنگ یا لڑائی کے بغیر اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کی جاسکتی ہے ۔ سوشیل میڈیا کو خود احتسابی کی ضرورت ہے ۔ یہ اندیشے اب سر ابھارنے لگے ہیں کہ سوشیل میڈیا پر بھی حکومتیں کنٹرول کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ یہ موقع خود سوشیل میڈیا میں نفرت پھیلانے والوں نے فراہم کیا ہے ۔ اگر اب بھی سوشیل میڈیا اپنے آپ میںایک تبدیلی لائے اور مثبت تبدیلی لائے تو کسی مداخلت کے بغیر سماجی بہبود اور بہتری کیلئے نمایاںخدمات انجام دی جاسکتی ہیں۔ اس پہلو پر ہر فکرمند شہری کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔