سٹیزن شپ ایکٹ، این آر سی کس طرح ہندوستان کا نظریہ جمہوریت تبدیل کریںگے

   

برکھادت
حکومت اس بات پر بضد ہے کہ ترمیم شدہ نیا قانون برائے شہریت (سی اے اے) مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔ درحقیقت یہ قانون ہندوستانی مسلمانوں پر اثرانداز نہیں ہوتا ہے۔ سوشیل میڈیا پر اس کے طوفان برداروں سے دلیل کے ساتھ یہ کہا گیا کہ جو لوگ بہتر اصولوں پر تنقید کرتے ہیں، میں (مصنف) ان میں سے ایک ہوں۔ پڑوسی ممالک کے مطابق مذہبی اقلیتوں کو یہ قانون تحفظ فراہم کررہا ہے۔ یہ حقائق کے ساتھ چیرادستی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ آخر ہندوستان نے انتہائی امتیازی اور متعصبانہ قانون کیوں پاس کیا ہے۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے پہلے ہی یہ کہہ دیا کہ ہندوستان سے تمام دراندازوں کو نکال باہر کیا جائے گا اور یہ بھی کہ درانداز چاہے وہ بیرون ملک رہتا ہو بلالحاظ عیسائی، مسلم، سکھ؟ نہیں ہرگز نہیں، بی جے پی کا نظریہ اس معاملے میں قطعی الگ ہے۔ انہی چیزوں کو پہلے آسام میں آزمایا گیا جس سے وہاں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس (کالے) قانون کے خلاف مظاہروں کا موجودہ مرکز (آسام بن گیا) سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عدالت کی زیرنگرانی این آر سی تجربہ اتنا ہولناک ہے اور یہ نتائج پارٹی کیلئے کسی تکلیف کا باعث نہیں ہوئے۔ آسام میں تقریباً1.9 ملین افراد جس میں نہ صرف بنگلہ دیشی مسلمان تھے بلکہ ان میں ہندو بھی شامل تھے۔ اب اس نئے کالے قانون کے ذریعہ ان ہندوؤں کی ڈھال کا کام دے گا اور مسلمان تارکین وطن کو ’غیرملکی ٹریبیونل‘ کے سامنے چھوڑ دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ نیا (کالا) قانون پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے غیرمسلمین کو جیل، ملک بدری، مجرمانہ کارروائیوں سے حفاظت فراہم کرتے ہوئے انہیں ہندوستانی شہریت پیش کرے گا، یعنی دوسرے لفظوں میں ملک بدری صرف مسلم تارکین وطن کا مقدر بن جائے گی۔
سی اے اے اور این آر سی بنیادی طور پر (جمہوری) ہندوستان کو تبدیل کرنے کا موجب ثابت ہوگا۔ اگرچیکہ حکومت نے سی اے اے قانون کو بظاہر نہایت محبت اور اخلاص سے پیش کیا ہے لیکن جب کبھی اس خطرناک این آر سی ہتھیار کا استعمال ہوگا تو پھر یہ نہایت بے رحم اور سفاک ثابت ہوگااور جو افراد یہ کہتے ہیں کہ یہ (کالا) قانون ہندوستان کے 200 ملین مسلمانوں پر کچھ بھی اثرانداز نہیں ہوگا تو مجھے (یعنی مصنفہ) سوال کرنے دیں کہ وہ لوگ بتائیں کہ انہیں یہ اشارہ کس بنیاد پر ملا ہے کہ کیا ہمارے لوگوں میں عقائد کی درجہ بندی نہیں ہے؟
اگر مہاجرین غربت اور بے حسی کے مکروہ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور میں (مصنفہ برکھا دت) خود پاکستان کے مہاجر ہندوؤں سے مل چکی ہوں جو کئی دہوں سے نہایت ہی برے حالات میں راجستھان میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، وہ ضرور ہندوستانی شہریت پانے کے مستحق ہیں تو ان کی بلالحاظ مذہب ان کو توسیع دینی چاہئے اور اس میں سری لنکا کے ٹامل ہندوؤں اور میانمار کے مظلوم روہنگیائی مسلمان بھی شامل ہونے چاہیں اور اگر ہماری قومی پالیسی یہ ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن ’درانداز‘ متصور کئے جاتے ہں تو ہندوستان میں بغیر کسی قانونی دستاویز کے داخل ہونے والے اور ویزا کے بغیر داخل ہونے والے بھی درانداز تصور کیا جانا چاہئے۔ کیا بی جے پی اس کو قبول کرنے یا اس پر مباحث کے لئے تیار ہے۔؟
یہ ہوسکتا ہے، اس لئے کہ چند گودی میڈیا کے سیاست دانوں اور صحافیوں نے دونوں (سی اے اے اور این آر سی) کے درمیان رابطہ کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔
اول الذکر (سی اے اے) سیاسی طور پر بے مقصد ہے اور جب اس پہلے (کالے) قانون کو دوسرے سے مربوط کرنے کی کوشش کریں تو یہ معاملہ بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
جس طرح ہم نے آسام میں دیکھا، ہم سب کو ہندوستانی ہونے کا ثبوت دینا پڑا اور سب سے زیادہ متاثر ہم سب میں مسلمان ہوئے اور وہ حاشیہ میں ہوکر رہ گئے۔
شمال مشرق میں بطور خاص آسام میں پھوٹ پڑا آتش فشاں بی جے پی کیلئے ایک بروقت یاد دہانی والا سبق ہیں۔ ’بیرونی‘ کا ٹکڑا مذہب سے ہرگز نتھی نہیں کیا جاسکتا۔ سی اے اے اور این آر سی، مساوات نہ صرف ریاضی بلکہ ہندوستان کے فلسفہ کو تبدیل کردیں گے۔