سپریم کورٹ عوامی حقوق کا تحفظ کرے مارکنڈے کاٹجو سابق جج سپریم کورٹ

   

میں نے حال ہی میں ٹیلی فون پر سپریم کورٹ کے ایک سینئر برسر خدمت جج سے بات کی اور انہیں بتایا کہ ہندوستانی شہریوں کی اکثریت کا یہی خیال ہے کہ سپریم کورٹ دستور کی حقیقی روح کی برقراری اور عوام کی آزادیوں کے تحفظ سے متعلق اپنے فرض کی ادائیگی سے تقریباً دستبردار ہوگئی ہے۔اگرچہ جس وقت میں سپریم کورٹ کا برسر خدمت جج ہوا کرتا تھا اس جج سے بہت سینئر تھا اس کے باوجود میں نے پہل کرتے ہوئے اس جج سے بات کی اور میں نے ان پر واضح کیا کہ جب سے میں وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوا ہوں جج باقی نہیں رہا لیکن عوام کا ایک رکن ہونے کے ناطے میں عوام کے ایک نمائندے کی حیثیت سے بات کررہا ہوں۔ ایک جج کی حیثیت سے نہیں اور عوام کا یہ خیال ہے کہ سپریم کورٹ سیاسی اور مقننہ کی من مانی ان کی غیر قانونی حرکتوں اور صوابدیدی کے مقابلہ شہریوں کے تحفظ کے لئے اپنا دستوری فرض بہتر انداز میں نہیں نبھا رہی ہے۔ اس کے بجائے سپریم کورٹ نے خود کو حکومت کے آگے تقریباً خود سپرد کردیا ہے اور اکثر اس کے حکم کی تعمیل کررہی ہے۔
میں نے اس جج سے یہ بھی کہا کہ موجودہ لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد وہ میرے اور سپریم کورٹ کے بعض سینئر برسر خدمت ججس کے درمیان (اپنے گھر یا کہیں اور) ملاقات کا اہتمام کریں جس میں میں اپنے خیالات پیش کرنا چاہوں گا۔ میری اس تجویز سے اس جج نے بھی اتفاق کیا۔میں نے اس سے قبل بھی کئی ایسے مثالیں پیش کی ہیں جہاں لگتا ہے کہ سپریم کورٹ عوام کے حقوق کے تحفظ میں اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام ہوا۔ ایسے میں اب مجھے ان مثالوں کے حوالہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
28 جنوری 1950 کو نافذ العمل ہندوستانی دستور میں عوام کے بنیادی حقوق کا واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ایسے ہی امریکی دستور میں بھی حقوق کابل موجود ہے۔ دراصل عدلیہ کو ان حقوق کا محافظ اور سرپرست بنایا گیا ہے ورنہ یہ حقوق صرف برائے نام کاغذ پر ہی رہتے۔دستور کے نفاذ کے چند ماہ بعد سپریم کورٹ کی ایک دستوری بنچ نے رومیش تھاپر بمقابلہ صوبہ مدراس مقدمہ میں پرزور انداز میں یہ کہا کہ جمہوریت میں عوام کو حکومت پر تنقید کا حق حاصل ہے۔ عدالت کا کہنا تھا ’’حکومت کے خلاف تنقید اس کے تئیں ناامیدی یا برااحساس ہے۔ اس سے آزادی اظہار خیال یا آزادی صحافت پر پابندی عائد کرتے ہوئے منصفانہ قرار دینے کا بہانہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔جسٹس عبدالقدوس نے یہ بھی ریمارک کیا کہ 1956 میں کرتار سنگھ بمقابلہ صوبہ پنجاب مقدمہ میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ موٹی چمڑی کے ہو جائیں باالفاظ دیگر حکام کو تنقید برداشت کرنے کی عادت ڈال لینی چاہئے۔
مذکورہ فیصلہ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ آج کل اقتدار کے حامل سیاستداں انا پرستی کا شکار ہیں کسی بھی طرف سے کی جانے والی تنقید کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں کئی ایک مشہور مثالیں ہمارے سامنے ہیں، مثال کے طور پر صفورہ زرگر ایک نوجوان کشمیری خاتون کو واضح طور پر جھوٹے الزامات میں صرف اس لئے گرفتار کیا گیا کیونکہ انہوں نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) پر تنقید کی تھی۔ اسی طرح ڈاکٹر کفیل خان اور شرجیل امام کو بھی جھوٹے و فرضی الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔جادھو یونیورسٹی کے پروفیسر امبیکشس مہاپترا کو 2012 میں صرف اس لئے گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی کے کارٹون کو سوشل میڈیا پر شیر کیا تھا۔
کارٹونسٹ اسیم ترویدی کو ایک ایسا کارٹون بنانے پر جس میں سیاستدانوں کو بدعنوان دکھایا گیا تھا بغاوت کے الزام میں گرفتاری عمل میں آئی اسی طرح لوک گلوکار کوون کو تاملناڈو میں 2015 کے دوران اسی لئے گرفتار کیا گیا کیونکہ انہوں نے شراب کے ’’دھندے‘‘ میں کرپشن کے معاملہ کو لیکر جیہ للیتا پر تنقید کی تھی۔
حکومت یا کسی وزیر پر تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف بھی اکثر بغاوت کے الزامات عائد کئے گئے ہیں یا NSA یا UAPA جیسے ظالمانہ قوانین کے تحت ان کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔مثال کے طور پر کشور چند وانگ کھیم کو چیف منسٹر منی پور بیرن سنگھ پر تنقید کے لئے 2018 میں گرفتار کیا گیا ۔ پون جیسوال نامی ایک صحافی کو گزشتہ سال اترپردیش میں صرف اس لئے گرفتار کیا گیا کیونکہ اس نے یہ خبر عام کی تھی کہ مرزا پور کے ایک سرکاری پرائمری اسکول میں بچوں کو دوپہر کے کھانے کی اسکیم کے تحت دوپہر میں کھانے کے لئے صرف روٹی اور نمک دیا جارہا ہے۔محقق و کالم نگار ابھیجیت ایر مترا کو سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے جس کی قیادت اس وقت کے چیف جسٹس (جو اب رکن پارلیمنٹ ہیں) رنجن گوگوئی نے ڈسمبر 2018 میں ضمانت منظور کرنے سے انکار کردیا اگرچہ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے کونارک مندر سے متعلق ایک طنزیہ ٹوئٹ کیا تھا (جس کے لئے انہوں نے معذرت خواہی بھی کرلی تھی)
11 مئی گجرات آن لائن پورٹل Face of the nation کے ایڈیٹر دھوائی پاٹل کو صرف یہ خبر شائع کرنے پر کہ جیف منسٹر گجرات وجئے روپانی کی تبدیلی کا امکان ہے بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ انتقامی سیاست کی ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں غیر قانونی اور غیر ضروری طور پر تنقید کرنے والوں کو حراست میں لیا گیا یا گرفتار کیا گیا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ آیا جس طرح درویدی کو برہنہ کرنے کے دوران بھیشما پتاما نے نظریں موڑ لی تھیں کیا سپریم کورٹ کو بھی اسی طرح ان کھلی اور واضح غیر قانونی حرکتوں پر نظرانداز کردینا چاہئے۔
ان بے شمار فیصلوں کا کیا باقی رہ جائے گا جس میں عدالت غلطی نے خود یہ کہا تھا کہ وہ (سپریم کورٹ) عوام کے حقوق کی نگہبان اور سرپرست ہے۔غنی بمقابلہ جونس مقدمہ 1970 میں مقرر جج ڈیننگ نے کچھ یوں کہا تھا ’’ایک شخص کی آزادی نقل و حرکت کا برطانوی قانون میں بہت زیادہ لحاظ کیا جاتا ہے اور قانون یہ چاہتا ہے کہ کسی شخص کی آزادی کو سلب نہیں کیا جائے اور نہ ہی اس میں رکاوٹ پیدا کی جائے جب بھی برطانوی ججس کے سامنے غیر قانونی حراست حبس کارپس پٹیشن آئی تو وہ تمام فائلوں کو بازو رکھ کر اسی درخواست کی سماعت کو ترجیح دیتے کیونکہ یہ کسی کی انفرادی آزادی کا معاملہ ہوتا ہے۔
لیکن 5 اگست 2019 کو کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی موقف کی منسوخی کے بعد جن کشمیری قائدین کو گرفتار کیا گیا ان کے غیر قانونی حراست میں رکھنے سے متعلق مقدمات میں سپریم کورٹ کی کارکردگی کیسی رہی؟ ان مقدمات کو بار بار کئی ماہ کے لئے ملتوی کیا گیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک کئی مقدمات زیر التواء ہیں۔ اس کے برعکس ارنب گوسوامی کی درخواست کی جو حکومت سے قربت رکھتا ہے اولین ترجیح کی بنیاد پر سماعت کی گئی اس سے کیا پیغام دیا گیا؟میرے خیال میں سپریم کورٹ کو مذکورہ غیر قانونی گرفتاریوں کی از خود نوٹس لینا چاہئے۔