سیاسی، سماجی زندگی پرذات پات کے اثرات

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ذات پات اور تحفظات ( ریزرویشن ) پھر سے سُرخیوں میں آگئے ہیں، جہاں تک درج فہرست طبقات و قبائل اور سماجی و تعلیمی طو ر پر پسماندہ طبقات کا سوال ہے دستور کی دفعہ 15 اور 16 میں انہیں تحفظات دینے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے جبکہ معاشی طور پر پسماندہ طبقات (EWS) کو 2019 میں تحفظات کی فہرست میں شامل کیا گیا جب تک ’’ریزرویشن ‘‘ کی پالیسی جاری رہے گی، یہ منطقی طور پر درست ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری یا اس سے متعلق درست ڈیٹا ضروری ہے۔ فی الوقت ریزرویشن کے شور کے درمیان بے ذات سوسائٹی کا مقصد دُھندلاہٹ کا شکار ہوگیا ہے۔ بی جے پی لیڈر اور ڈپٹی چیف منسٹر مہاراشٹرا مسٹر دیویندر فڈ نویس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے پرزور انداز میں کہا کہ میں اپنی ذات تبدیل نہیں کرسکتا۔ انہوں نے یہ بیان مرہٹی کمیونٹی کیلئے تحفظات سے متعلق ایجی ٹیشن کے درمیان ناقابلِ رشک موقف کے تناظر میں دیا ہے۔ بادی النظر میں ڈپٹی چیف منسٹر مہاراشٹرا کا بیان ناقابلِ استثنیٰ ہے۔
ذات پر مبنی تحفظات کا قریب سے جائزہ لینے کے بعد مجھے حیرت ہوئی کہ آخر مسٹر فڈنویس کی ذات کیوں ایک مسئلہ بن گئی، کسی کا نام لئے بناء میرا یہ کہنا ہے کہ اکثر ہندوستانیوں کیلئے بعض لیڈروں کی ذات غیر متعلق ہوتی ہے یعنی وہ کسی سیاستداں کی ذات کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتے جبکہ بعض لیڈروں ( سیاستدانوں ) کی ذات ان کی سیاست کا محور ہوتی ہیں یعنی وہ ذات کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ عام طور پر سیاستدانوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ میں یاد نہیں کرسکتا کہ کسی نے مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو یا سردار ولبھ بھائی پٹیل کی ذات کے بارے میں پوچھا ہو، مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ نیتا جی سبھاش چندر بوس یا سابق صدر جمہوریہ راجندر پرساد کی ذات کے بارے میں کہیں کسی کتاب میں پڑھا ہو۔ میں نے سطورِ بالا میں جن شخصیتوں کے نام لئے ہیں وہ ہندوستانی معاشرہ میں عظیم انسانوں کے طور پر جانے جاتے تھے اور قابلِ احترام تھے حد تو یہ ہے کہ کبھی بھی کسی نے یہاں تک کہ ان کے کٹر سیاسی حریفوں نے انہیں ایک ذات تک محدود کرنے یا ایک ذات میں قید کرنے یا پکڑنے کی کوشش نہیں کی اگر وہ ایسا کرتے تو وہ توہین آمیز ہوتا۔ بدقسمتی سے ہندوستان میں ہر کوئی کسی نہ کسی ایک ذات میں پیدا ہوتا ہے سوائے ان خوش نصیبوں کے جو بین ذات یا بین المذاہب جوڑوں کی اولاد ہیں۔
مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ بہت سے تعلیم یافتہ نوجوان خاص طور پر شہری علاقوں کے نوجوان اب کسی بھی ذات سے اپنی شناخت نہیں رکھتے، یہ جاننا بھی بڑا حوصلہ افزاء ہے کہ تعلیم سے لوگوں میں روشن خیالی، وسیع النظری اور وسیع القلبی بڑھ گئی ہے خاص طور پر ایسے جوڑے جن میں شوہر اور بیوی ایک ہی ذات سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ اپنے بچوں کو اپنی پسند سے شادیاں کرنے کی اجازت دینے لگے ہیں چاہے وہ کسی بھی ذات سے کیوں نہ تعلق رکھتے ہوں یعنی تعلیم یافتہ جوڑوں میں وسیع القلبی ، وسیع الذہنی اس قدر زیادہ بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شادیوں میں ذات پات کو اہمیت دینے سے گریز کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں آجکل بین ذات پات شادیاں بہت ہورہی ہیں۔ یہ تمام واقعات و تبدیلیاں ہندوستان کے ایک حقیقی سیکولر ہونے کیلئے ایک اچھا اشارہ کرتے ہیں اور یہ نقطہ یہاں غیر مذہبی معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے اور وہ ہے مساوی معاشرہ۔ بہرحال میں اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں کہ ذات پات ہندوستانیوں کی نفسیات میں بڑی گہرائی تک پیوست ہیں اور ذات پات کا ڈھانچہ کمزور نہ ہونے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ڈھانچہ کا کوئی متبادل نہیں۔ اس لئے ہمیں ذات پات کے ایسے ڈھانچے بنانے کی ضرورت ہے جو قوم کے حقوق کا دِفاع کریں اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائیں، مصیبتوں اور مشکلات کے وقت ان کی مدد کریں، خوشی کے لمحات میں ان کے ساتھ رہیں، ان کے غم میں برابر کے شریک رہیں اور عوام کو یہ یقین دلائیں کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور تمام کو مساویانہ حقوق حاصل ہیں۔( دستور کی دفعہ 14 ) بہر حال اپنے اطراف و اکناف دیکھئے کہ آیا اس طرح کا کوئی ڈھانچہ ہے؟ ایسے ڈھانچے کی عدم موجودگی میں لوگ خاص طور پر غریب اور مظلوم، دبے کچلے لوگ ایک ذات میں پناہ لیتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں عوام پر مبنی اور عوام کو فروغ دینے والی تنظیمیں بہت کم ہیں۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ایسی تنظیم بنانے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے قتل کے بعد وہ تنظیمیں کمزور ہوگئیں اور پھر ختم ہوگئیں۔ انہوں نے جو تنظیمیں بنائی تھیں اپنی خود مختاری کھو بیٹھیں، اس ضمن میں احمد آباد میں واقع سابر متی آشرم کی مثال ہمارے سامنے ہے جسے فی الوقت کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز کو دیکھیں اور سوچیں کہ اس قسم کی تنظیموں کا کیا حال ہے۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کا سوال ہے عوام ( ارکان ) سیاسی جماعتوں میں اپنی ذات پات کی شناخت بھی لے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی سیاسی قائدین اپنی ( مرد ؍ خاتون ) ذات کی شناخت ظاہر کرتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات پات کی شناخت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ مسٹر فڈ نویس کا المیہ یہ ہے کہ میں اس بات کو ماننے کیلئے تیار ہوں کہ مسٹرفڈ نویس سیکولر ہیں اور اپنی ذات کی شناخت ظاہر نہیں کرتے لیکن مراٹھا ریزرویشن کے بارے میں پیدا شدہ تنازع کے درمیان پھنس گئے اور مسٹر فڈنویس کو یہ کہنا پڑا کہ میں اپنی ذات تبدیل نہیں کرسکتا۔
ویسے بھی کسی فرد کے ذات پات کی جال سے فرار ہونے کی کئی راہیں ہیں اس معاملہ میں پہلا جو قدم ہے وہ یہ ہے کہ اپنے ناموں سے ذات پات کو ظاہر کرنے والے ناموں اور کنیت Sur name کو حذف کردیں۔ دوسرا قدم یہ ہے کہ خود کو کسی مخصوص ذات سے تعلق رکھنے یا اس کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں سے نہ جوڑیں۔ سماجی اور سیاسی رہنما اس راہ کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ قومی ہیروز کو ان کی ذات کے ساتھ ساتھ شناخت ظاہر نہ کریں، یاد رکھئے وہ ہمارے قومی ہیروز ہیں کیونکہ ان لوگوں نے بلالحاظ مذہب و ملت، رنگ و نسل تمام لوگوں کے لئے کام کیا، کسی مخصوص ذات کے حامل گروپ کیلئے نہیں کیا۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ کسی کی ذات تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ صرف یہی کافی ہے کہ آپ کسی ذات کی سرپرستی نہ کریں اور کسی ذات کو فروغ نہ دیں۔ ایک اوسط شخص کسی فارم یا دستاویز میں اپنی ذات ظاہر کرنے سے انکار کرسکتا ہے اور کوئی بھی فرد ایسی عمارت میں رہ سکتا ہے جہاں کے مکینوں کا مختلف ذاتوں سے تعلق ہو۔ کوئی بھی شخص دوسری ذات سے تعلق رکھنے والی بیوی کا انتخاب کرسکتا ہے اور (مرد؍ خاتون ) اپنے بچوں کو دوسری کسی ذات سے لڑکی/ لڑکا پسند کرنے کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں اور کام کے مقام پر کوئی بھی مرد؍ خاتون کسی بھی ذات کے ماننے والوں کے ساتھ کام کرسکتے ہیں۔ یہ تمام سیدھے سادھے اقدامات ہیں اور اگرچہ ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ ذات کی شناخت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے اس کے باوجود ہمیں کہیں نہ کہیں سے شروعات و کرنی پڑے گی۔ اگر عوام اور سیاسی جماعتیں عزم و حوصلہ کا مظاہرہ کریں تو حقیقت میں ہندوستان کی سماجی اور سیاسی زندگی پر ذات پات کا اثر ختم ہوسکتا ہے۔