سیدنا الامام الحبیب عبداﷲ بن علوی الحدادؓ

   

مولانا حبیب سہیل بن سعید العیدروس
آپ ؒ کااسم گرامی حبیب عبداﷲ بن علوی الحداد ہے ۔ الحداد اپنے جد کریم کی نسبت سے لکھتے تھے کیونکہ آپ کے جد کریم سید احمد بن ابوبکر اپنا بیشتر وقت لوہار کی دوکان پر گذارتے تھے جس کی وجہ سے لوگ آپ کو بھی حداد ( لوہار) پکارتے تھے ۔
حالات زندگی : امام الحداد ۱۰۴۴ہجری کو دوشنبہ یا جمعرات کے روز شہر تریم کے قریب بستی سُبیر ، یمن میں پیدا ہوئے ۔ آپ کی عمر صرف ۴سال تھی کہ آپ نابینا ہوگئے لیکن اﷲ تعالیٰ کو اس بچے سے کچھ اور ہی کام لینا تھا اس لئے آپ کی ظاہری آنکھ تو بند ہوگئی لیکن باطنی آنکھ یوں روشن ہوئی کہ سارا عالم آپ کی نظر سے دیکھنے لگا ۔ آپ کے والد گرامی نے آپ کو علم کی رغبت دلائی اور کمسنی ہی میں حافظ قرآن ہوگئے اور کئی اسلامی کتب کو یاد کرلیا تھا اور پھر یمن کے بڑے بڑے شیوخ کے پاس زانوئے تلمذ طئے فرمایا جن میں حبیب عبداﷲ بن احمد بلفقیہ ؒ ، حبیب عمر بن عبدالرحمن العطاسؒ اور حبیب محمد بن علوی السقافؒ تھے ۔ امام الحداد کو ایک خط کے ساتھ حبیب محمد السقاف کے پاس مکۃ المکرمہ روانہ کیا گیا تاکہ آپؒ مزید علوم حاصل کرسکیں ۔ علم حاصل کرتے کرتے اتنی گہرائی کو پہنچ گئے کہ آپؒ مجتہد کے مقام کے حامل ہوگئے تھے ۔ آپؒ کو علم سے بہت محبت تھی اور آپؒ کثرت سے عبادت و مجاہدات بھی فرماتے تھے ۔ آپؒ کا پورا دن عبادات کی کثرت اور اذکار کی حلاوت میں مزین رہتا جوکہ تہجد سے شروع ہوکر نصف رات تک چلتا رہتا اور اس خوبی کیساتھ کے گھریلو کام ، تدریسی خدمات اور دیگر ذمہ داریاں بھی بدرجۂ کمال ادا ہوتیں ۔ آپؒ نے کئی اذکار بھی مرتب فرمائے جن میں مشہور راتب الحداد اور الورد الطیف ہے جوکہ سالک کو روحانی خوراک عطا کرتا ہے۔ آپؒ کو سورۂ یٰسین سے بہت لگاؤ تھا اور کثرت سے اس کی تلاوت بھی کرتے اور سماعت بھی اور انھیں یٰسین کے خاص رموز و اسرار بھی عطا کئے گئے تھے ۔ آپؒ سورۂ یٰسین کی تلاوت کے بعد جو دعا فرمایا کرتے تھے وہ آج تک کروڑوں عقیدت مندوں کی زبان پر جاری ہے ۔ حضور سیدنا رسول اﷲ ﷺ کی اجازت و حکم سے آپؒ نے لوگوں کو اﷲ کی طرف بلانا اور راہِ سلوک و معرفت پر گامزن کرنا شروع کیا یہاں تک کہ آپؒ قطب الدعوۃ والارشاد کے نام سے ملقب ہوئے ۔ آپؒ کے مریدین کی تعداد بہت کم تھی جنھیں آپؒ خصوصی روحانی توجہات عنایت فرماتے تھے ۔ آپؒ علماء سے فرمایا کرتے کہ وہ اپنے علم کے مطابق عمل کیا کریں اور خود داعی اسلام بننے کی کوشش کریں۔ آپؒ باشاہ امراء اور عام رعایا سب کو برابر سمجھتے تھے اور یکساں دیکھتے تھے ۔ آپؒ نے ماہِ رجب سے مولدالنبی کی مجلس کا اہتمام فرمانا شروع کیا اور جتنے لوگ اس میں شریک ہوتے سب کو اتنا کھلاتے کے شکم سیر ہوکر گھر لوٹتے اور اس پر فرماتے تھے کہ اگر لوگ ہمارے اقوال و ارشادات کو دل میں نہیں اُتارتے اور اس سے نفع حاصل نہیں کرتے تو ہم برکات کو رزق کے ذریعہ اُتاریں گے ۔
امام الحداد نے اپنے علم و اسرار کو اپنی شاعری میں ڈھال کر پورا دیوان تحریر فرمایا جولوگوں کیلئے دعوت الی اﷲ کا ذریعہ ہے ۔ خود آپؒ نے فرمایا کہ جس کے پاس میرا دیوان ہے اُسے کوئی مزید کتابوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپؒ کی شاعری اُن طریقت کے اسرار کو بیان کرتی ہے جو سوائے سالکین کے کوئی دوسرا سمجھنا دشوار ہے۔ آپؒ کے دیوان کو آپؒ کی زندگی ہی میں آپؒ کے شاگرد خاص حبیب احمد بن زین الحبشی نے مکمل تشریحات کے ساتھ بیان فرمادیا تھا ۔ آپؒ کی شاعری کی مقبولیت اس حد تک پہونچ گئی کہ آپؒ کے دیوان کا ایک شعر مسجد نبویؐ کی اس دیوار پر کندہ کیا گیا جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے روضۂ اقدس میں واقع ہے ۔ وہ شعر یہ ہے؎
نبی عظیم خلقہ الخلق الذی
لہ عظم الرحمن فی سید الکتب
ترجمہ : ایک باعظمت نبی جن کے اخلاق ایسے عظیم ہیں کہ جن کو اﷲ تعالیٰ نے اس کتاب (قرآن) میں ذکر فرمایا جو تمام کتب کی سردار ہے ۔
امام الحدادؒ کی جملہ کتب آج بھی لوگوں کو زندگی اور روشنی فراہم کررہی ہیں ۔ امام الحدادؒ کی ہمیشہ یہی دعا رہتی کہ اﷲ تعالیٰ حضورؐ کی اتباع سنت و پیروی میں مزید مضبوطی عطا فرمائے اور آپؒ نے بڑھاپے میں اپنے بال کو بڑھالیا تھا یہ کہتے ہوئے کہ ایسی ایک بھی سنت نہیں بچی جو حضور اکرم ﷺ سے ثابت ہے اور میں نے اس پر عمل نہ کیا ہو ۔
آپؒ کا وصال : آپؒ بارہویں صدی ہجری کے مجدد تھے ۔ آپؒ نے تقریباً اٹھاسی (۸۸) سال کی عمر پائی اور ۷ذوالقعدہ ۱۱۳۲ھ کو داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنی تعلیمات ، کتب و اسرار کے ذریعہ اپنے محبین کے قلوب میں حیات جاودانی پاگئے ۔ آپؒ کا مزار مبارک زنبل نامی قبرستان ، تریم ، یمن میں واقع ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپؓ پر رحم فرمائے اور تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین