سی اے اے اور این آر سی مخالف احتجاج میں خواتین کی مرکزی حصہ داری

,

   

حیدرآباد۔پولیس کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے سے اپنے ساتھی کو بچانے اور پولیس والوں کو انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے روکنے والی نوجوان لڑکیوں کے ویڈیو اور فوٹوز وائیرل ہوئی ہیں۔

مذکورہ تین لڑکیاں لدیدا فرزانہ‘ عائشہ رانا اور چندانا یادو ہیں۔ یہ تینوں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ ہیں‘ یونیورسٹیوں میں یہ وہ پہلا ادارہ ہے جہاں سے مخالف سی اے اے احتجاج کی قومی راجدھانی میں شروع ہوئی تھی

ہندوستان میں مرکزی دھارے کے مظاہروں کی تاریخ میں خواتین نے بڑا رول ادا نہیں کیا ہے‘معاشرتی اصولوں کے پیش نظر اس سے زیادہ مسلم خواتین عوامی دائروں میں حصہ داری کے لئے کافی محدود بھی رہی ہیں۔

ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ خواتین سڑکوں پر اتری ہیں۔ اس مرتبہ خواتین احتجاجیوں میں سے ایک نے کہاکہ حکومت نے انہیں سڑکوں پر اترنے کے لئے مجبور کیاہے۔

شہر ت ترمیمی ایکٹ(سی اے اے) کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاج میں ایک نشان کے طور پر مسلم او رغیر مسلم عورتیں مظاہروں کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔

حکومت کے خلاف عوام کی برہمی کی مثال کے طور پر کئی خواتین اس قانون کی مخالفت میں احتجاج کررہی ہیں جس نے منتخب ممالک کی مذہبی اقلیتوں کو ہندوستان کی شہریت کی راہ ہموار کی ہے۔

ایک اٹھارہ سالہ لڑکی جس کا نام اندولیکھا پرتھاہے نے وزیراعظم نریندرمودی کو منھ توڑ جواب ’برقعہ‘ پہن کر دیا ہے اور اس کے ہاتھ میں پلے کارڈ بھی ہے جس پر تحریر ہے کہ ”مسٹر مودی‘ میں اندولیکھا ہوں۔

میری ڈریس سے میری شناخت کریں؟“۔وہ نرینر مودی نے کے اس تبصرے کا حوالہ دے رہی تھیں جس میں انہوں نے کہاتھا کہ تشدد میں شامل لوگوں کی شناخت ان کے لباس سے کی جاسکتی ہے۔

نئے شہریت قانون جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیا ہے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج میں روز بہ روز اضافہ ہوتاجارہا ہے‘ جس میں کئی خواتین ملک بھر سے‘ آسام سے لے کر نئی دہلی تک اور اترپردیش سے لے کر کیرالا تک اس قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔

خواتین مذکورہ احتجاجوں میں پیش پیش ہیں کیونکہ ایسی دنیامیں اپنے بچوں کے مستقبل سے پریشان ہیں جہاں پر این آر سی اور سی اے اے جیسا قانون نافذ کیاجانے والا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے قانون کو نافذ نہیں ہونے دینا چاہے کیونکہ یہ انہیں ملک کی شہریت ثابت کرنے کے دستاویزات مشقت کرنا پڑے گا۔

رائٹرس کے مطابق کئی قدامت پسند مسلم گھرانوں کی خواتین او رلڑکیاں بھی اپنے گھروں سے باہر نکل کر اس احتجاج میں شامل ہوگئی ہیں

کیونکہ ان کااحساس ہے کہ عوام دشمن قانون سے ائین اور اپنی کمیونٹی کی حفاظت کے لئے یہ ضروری ہے۔

ان کا کہناہے کہ وہ حکومت اور نہ ہی وزیراعظم سے خوفزدہ ہیں اور وہ اپنے حقوق کے لئے سینوں میں گولی کھانے کے لئے تک تیار ہیں

YouTube video

YouTube video

YouTube video