سی اے اے و این آر سی ‘ دستور کی توہین ‘ عوامی جائیداد ہڑپنے کی سازش

,

   

حکومت نے گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریہ کو پامال کردیا ۔ ممتاز سماجی جہد کار میدھا پاٹکر و دیگر کا کنونشن سے خطاب

حیدرآباد9 جنوری(سیاست نیوز) این آر سی سماج کو کمزور کرنے اور ہندستانی شہریوں کی جائیدادو ںکو ضبط کرنے کی منظم سازش ہے اور اس سازش کے ذریعہ حکومت عوام کو منقسم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ممتاز سماجی جہدکار محترمہ میدھاپاٹکرنے آج شہر میں منعقدہ ایک کنونشن سے خطاب کے دوران یہ بات کہی اور کہا کہ قانون ترمیم شہریت اور این آر سی آئین کی توہین اور دستور کے مغائر ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ملک بھر میں گاندھی جی کی 150ویں یوم پیدائش منا رہی ہے لیکن ان کے عدم تشدد کے نظریہ کو پوری طرح سے مسترد کرکے عوام کو تشدد کا شکار بنایا جا رہاہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام پر امن احتجاج کو ترک کرکے تشدد پر اتر آئیں لیکن ہندستان کے نوجوانوں سے ثابت کردیا کہ وہ پر امن تحریک چلانا جانتے ہیں۔ میدھاپاٹکر نے کہا کہ سی اے اے ‘ این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک کسی قیادت کی محتاج نہیں رہی اور نوجوانوں کے ہاتھ میں یہ تحریک ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ جس تحریک کو نوجوان اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں وہ کامیاب ہوتی ہیں۔ اس سمینار میں جناب ظہیر الدین علی خان منیجنگ ایڈیٹر سیاست ‘ جناب سید عزیز پاشاہ سابق رکن راجیہ سبھا‘ پروفیسر پی ایل وشویشور راؤ‘ مسٹر سندیپ پانڈے میگاسیسے ایوارڈ یافتہ کے علاوہ کئی اہم شخصیتیں موجود تھیں۔ میدھا پاٹکر نے کہا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے طلبہ کو نشانہ بنا کر انہیں مشتعل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ملک کی جامعات کے طلبہ پر امن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں

اور اس کی باگ ڈور کسی جماعت یا قائد کے ہاتھ میں نہ ہونے سے احتجاج میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ انہو ںنے شاہین باغ دہلی میں مسلسل احتجاج کر رہی خواتین کے جذبہ کو سلام کیا اور کہا کہ یہ خواتین دستور کے تحفظ کیلئے مسلسل احتجاج کر رہی ہیں اور ان کے اس جذبہ سے احتجاجیوں کو سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ مسٹر سندیپ پانڈے نے ملک میں بڑھ رہی منافرت کا تذکرہ کیا اور کہا کہ حکومت منافرت کے فروغ کے ذریعہ بنیادی مسائل کی جانب سے توجہ ہٹانے کی کوشش میں مصروف ہے لیکن ملک کا ہر سنجیدہ شہری حکومت کے اس منصوبہ کو ناکام بناکر ہر اس پر بات کرنے تیار ہے جس سے حکومت عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جے این یو‘ جامعہ ملیہ اور علی گڑھ کے طلبہ کو نشانہ بناتے ہوئے پولیس نے ثابت کردیا کہ ملک میں دستور کی اجارہ داری باقی نہیں ہے کیونکہ دستور عوام کو احتجاج اور اظہار خیال کی آزادی فراہم کرتا ہے ۔ سندیپ پانڈے نے بتایا کہ شہریت کے سلسلہ میں دستاویزات پوچھنے کا حق حکومت کو حاصل ہی نہیں ہے کیونکہ جو ہندستان کا پیدائشی ہے وہ ہندستانی ہے اور اگر کوئی شہریت کیلئے ثبوت مانگتا ہے تو ہمارے ہندستانی ہونے پر شبہ کرنے کے مترادف ہے۔ جناب سید عزیز پاشاہ نے کہا کہ ملک میں طلبہ ہی نہیں بلکہ کسی بھی طبقہ کو اب مکمل تحفظ کی ضمانت نہیں مل رہی ہے جبکہ دستور نے ہر مذہب‘ ذات اورعقیدہ کے ماننے والوں کیلئے مساوی حقوق کے علاوہ ان کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے عوام کی آواز کو کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ ناقابل قبول ہے۔